’’جو لوگ سالہا سال اپنے افکار و نظریات بار بار تبدیل اور ایک نظریہ چھوڑ کر دوسرا نظریہ اختیار کرتے رہے ہیں وہ یہ دیکھ اور آزما چکے ہیں کہ ان کی جدوجہد اور کوششوں کو کس طرح ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور بالاخر انہوں نے مان لیا کہ واحد مکتب ِ فکر جس کے قریب سے بھی رسوائی اور ناکامی کاگزر نہیں آپ رسول اکرمﷺ کا مکتب ِ فکر ہے اور آپﷺ ہی کاراستہ صراط ِ مستقیم ہے چنانچہ انہوں نے اسے قبول کرلیا۔
کیا ہم دور ِ حاضر کے انسان کے دل کو سید المرسلینﷺ کی محبت سے لبریز اور آپؐ کی عظمت سے معمور کرسکے ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔
اگرانسانیت آپﷺ کو کماحقہ ٗ پہچان لیتی اور سمجھ لیتی تو عشق و محبت میں اپنے حواس کھو بیٹھتی اور اگر آپﷺ کی خوبصورت یادیں روحوں پر چھا جاتیں تو ان کے شوق کے جذبات بھڑک اٹھتے،آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔ آپﷺ کی پاکیزہ نبوت کے عالم کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے بدن کانپ اٹھتے اور روحیں اپنے آپ کو ہواکے سامنے ڈال دیتیں کہ آپﷺ کی آتش عشق میں جلنے والے دلوں کی چنگاری خاک ہو جانے کے بعد پھر سے بھڑک اٹھے اور وہ ہوا سےاڑ کر حضورﷺ کی خدمت میں لے جائے۔‘‘
یہ افکار جناب فتح اللہ گولن کے ہیں۔ وہی فتح اللہ گولن جنہیں ترک صدر اردوان اپنے خلاف ہونے والی بغاوت میں ملوث قرار دے کر امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی فتح اللہ گولن ہیں جو ایک زمانے تک اردوان صاحب کی حکومت کے لئے مشعل راہ رہے ہیں اور جن کے بنائے ہوئے سینکڑوں سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں صرف ا ور صرف رسول اللہﷺ سے محبت کا ذکر رہا ہے۔ ان کی تحریک، خدمت تحریک ہے۔ اس نے مسلمانوں کو محبت اور خدمت انسانی کا درس دیا ہے پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ سے بے پناہ محبت کرنے والے یہ فتح اللہ گولن اردوان کے خلاف کس طرح فوجی بغاوت برپا کروا سکتے ہیں؟
اگر ہم فتح اللہ گولن کے ماضی اورافکار پر روشنی ڈالیں تو ان کی تحریک میں سیاست کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ ضرور کہ انہوں نے اردوان کے خاندان کے بعض افراد کے کرپشن میںمبتلا ہونے کے حوالے سے آواز اٹھائی جس کے نتیجے میں اردوان حکومت نے ان کے افکار سے منسلک بعض ججوں کو فارغ کردیااور پھر ان دونوں حضرات کے درمیان ایک خاموش جنگ کا آغاز ہوا لیکن فتح اللہ گولن اور فوجی بغاوت، یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔
میںاپنی بات کو آگے بڑھانے سےقبل ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ فتح اللہ گولن کی زندگی اور افکار پرروشنی ڈالوں تاکہ قارئین یہ سمجھ سکیں کہ فتح اللہ گولن حقیقت میں ہیں کون؟
فتح اللہ گولن کے آبا کا تعلق ترکی کے شہر اناطولیہ میں واقع ایک چھوٹی سی بستی سے ہے۔ یہ لوگ یہاں امویوں اور عباسیوں کے ظلم و ستم سے بچنے کی خاطر پناہ گزین ہوئے تھے اور جلد ہی اپنی عبادات اور خیالات کی بدولت کوروجک بستی کےلوگوں کے روحانی پیشوا بن گئے۔ یوں گویا فتح اللہ گولن نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے اطراف میں اسلامی روح کی کرنیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ کے والد اور والدہ دونوں دین کی گہری بصیرت کے حامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فتح اللہ گولن نے چار برس کی عمر میں قرآن پاک کی تعلیم لینا شروع کی اور صرف ایک ماہ میں قرآن کریم ختم کرلیا۔ آپ کی والدہ آدھی آدھی رات کو اٹھتیں اور آپ کو بیدار کرکے قرآن سکھاتیں۔ جس گھرانے میں آپ نےپرورش پائی وہ اس علاقے کے معروف علما کرام اور صوفیا عظام کی زیارت و ضیافت گاہ تھا۔ آپ کے والد علما اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو بہت پسند فرماتے اور ان کی خواہش ہوتی کہ روزانہ کم از کم کسی نے کسی عالم کی ضیافت ضرور کریں۔ اس طرح فتح اللہ گولن کو بچپن ہی سے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا اور آپ نے اپنے آپ کو ابتدائے عمر سے ہی علم و تصوف کی آماجگاہ میں پایا۔ جن علما کرام سے آپ زیادہ متاثر ہوئے ان میں سب سے نمایاں شخصیت شیخ محمدمصطفیٰ آلورلی کی تھی۔ آپ ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے منہ سے نکلنے والی ہر بات کو کسی دوسرے جہان سے وارد ہونے والے الہامات سمجھتے۔
شیخ فتح اللہ گولن نے عربی اور فارسی زبان سیکھنے کا آغاز اپنے والد ماجد سے کیا جو کتب بینی میں مستغرق رہتے۔ ہر وقت چلتے پھرتے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہتے اور عربی و فارسی کے اشعار گنگناتے رہتے۔ آپ رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ سے عشق کی حدتک محبت کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کی زندگی کے حالات سے متعلق کتابوں کا اس کثرت سے مطالعہ کرتے کہ وہ بوسیدہ ہو جاتیں اور پھر نئی خریدنا پڑتیں۔ اس مطالعہ نے نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ سے محبت کا بیج فتح اللہ گولن کے دل میں بویا اور یوں آپ اکثر فرماتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کا ذکر کسی محفل میں ہو اور آنکھوں سے اشک نہ رواں ہوجائیں۔ فتح اللہ گولن فرماتے ہیں:
’’ہماری محفلیں اس حقیقت کو سمجھیں اور اس کا احاطہ کریں کہ ہمارے دل ہمیشہ اسی شمع کے گرداُڑتے اور اسی آفتاب کے گرد چکر کاٹتے ہیں اور عنقریب آپﷺ کی طرف رجوع نہ کرنے اور آپﷺ کے بارے میں لاپرواہی برتنے والے ندامت کے آنسو بہائیں گے اور رنج و الم کے کڑے گھونٹ پیئیں گے جس نے آپﷺ کی پیروی نہ کی اور بھاگا، وہ موسم سرما کی طرح علیحدہ اور تنہا رہا ۔وہ عنقریب تکلیف سے کراہتے اور پشیمانی و حسرت سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہوئے کہے گا ’’میںکیوں نہ اس طرف متوجہ ہوااور پروانوں کی طرح آپﷺ کے گرد نہ گھوما‘‘ لیکن اس وقت بہت دیر ہوئی ہوگی اور وقت بہت سے لوگوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ فتح اللہ گولن نےاپنے لوگوں کے لئے برخلاف ہر چیز کے خدمت کا نعرہ دیا۔ 1990 سے آپ نے ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جس نےپہلے پہل تو پورے ترکی میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال پھیلا دیا۔ ان سکولوں کالجوں میں اعلیٰ درجے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انسانی درس بھی دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان فارغ التحصیل لوگوں نے اور تحریک سے وابستہ افراد نے صحت کی طرف بھی توجہ کی اور خدمت کے لئے اعلیٰ ترین ہسپتالوں کو قائم کیا۔ ان لوگوں نے پاک صاف بزنس کی طرف بھی توجہ دی اور یوں ملک میں انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے راہ ہموار کی۔ ان کی تحریک باہمی گفت و شنید، افہام و تفہیم اور تعصب سے پاک ایک قائدانہ تحریک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اس تحریک کی جڑیں نہ صرف یہ کہ ترکی میں بے حد گہری ہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی اس کےاثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ جو تحریک افہام و تفہیم کی بات کرے، محبت پھیلائے اس کے خلاف ایسی کارروائی کیوں کہ اس کے سکولوں کو بند کرکے لاکھوں اساتذہ کو ان کی جاب سے ہٹا دیاجائے، ان سے وابستہ صحافیوں پر مقدمے قائم کردیئے جائیں، ان کے بنائےہوئے ٹی وی نیٹ ورکس اور اخبارات کو بند کردیاجائےاور یہ سمجھا جائے کہ اس طرح اردوان اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ختم کردیںگے۔ یہ تحریک یوں ختم نہ ہوگی اور نہ ہی اردوان اس طرح اپنے خلاف محبت کے جذبات پیدا کرسکیں گے۔ رابرٹ فسک ROBERT FISK نےاپنے ایک گزشتہ کالم میں یہ انتباہ کیا ہے کہ اردوان کے خلاف یہ بغاوت تو ناکام ہوگئی لیکن اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو دوسری بغاوت کامیاب ہو جائے گی۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ اردوان ایک ڈکٹیٹر بننے کی بجائے ایک لیڈر بنیں، اپنے ایسے اسلامی نظریات رکھنےوالے لوگوں سے صلح کریں وگرنہ انجام تو ضیا الحق کا بھی برا ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں جو نقصان پاکستان کاہوا ویسا ہی ترکی کا بھی ہوسکتاہے۔