• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے دریائوں میں کئی عشروں کے بعد آنے والے تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب سے صوبے میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس سیلاب سے سندھ میں بھی یہی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بنیادی خام مال یعنی کپاس کی پیداوار مزید کم رہنے کا خدشہ ہے۔ اس حوالے سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں سال پاکستان کو اپنی ضرورت پوری کرنےکیلئے تقریباً تین ارب ڈالر کی کپاس بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے گی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباََ دوگنا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی کل برآمدات میں کپاس اور اس سے تیار شدہ مصنوعات کا حصہ 55 سے 60فیصد تک ہے جبکہ کپاس کی کل پیداوار کا 70 سے 80فیصد پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ سے دو عشروں کے دوران ملک میں کپاس کی کاشت اور پیداوار انڈسٹری کی ضرورت یا ڈیمانڈ سے بہت کم ہو رہی ہے جسکی وجہ سے ہر سال تقریباً ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کی کپاس بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں کپاس کی پیداوار کا مجموعی پیداواری ہدف ایک کروڑ 28 لاکھ گانٹھ مقرر کیا گیا جسے بعدازاں کم کرکے ایک کروڑ 11 لاکھ 50 ہزار کر دیا گیا تھا لیکن اسکے باوجود یہ ہدف پورا نہیں ہو سکا تھا۔

اس سال سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو کپاس کی پیداوار کے مقررہ ہدف ایک کروڑ 12 لاکھ گانٹھ کے مقابلے میں 50 لاکھ گانٹھوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے تقریباً 70 لاکھ گانٹھ کپاس دستیاب ہو گی جو کہ انتہائی کم ہے۔ کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے اگرچہ پنجاب حکومت نے رواں سال خاطر خواہ اقدامات کئے تھے اور کپاس کی پیداوار کا صوبائی ہدف 55 لاکھ گانٹھ مقرر ہے۔ تاہم سیلاب کے باعث اب پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں دس سے پندرہ لاکھ گانٹھوں کی کمی کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بھی اس ممکنہ کمی کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کی سنٹرل کاٹن کمیٹی کی دو ستمبر کی رپورٹ کے مطابق 15 اگست تک پاکستان کی کپاس کی پیداوار پہلے ہی 17 فیصد سے زیادہ کم ہو کر آٹھ لاکھ 87 ہزار گانٹھوں پر آ چکی ہے جو ایک سال پہلے تقریباََ 11 لاکھ گانٹھ تھی۔

ان حالات میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس سال روئی کی درآمد ڈھائی سے تین ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے گزشتہ سال برازیل، امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا سے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی روئی درآمد کی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ وسطی پنجاب میں کپاس کی کاشت کرنے والے علاقوں وہاڑی، میلسی، چیچہ وطنی اور بورے والا سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں علاوہ ازیں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بی ٹی کپاس کی فصلیں بھی زیر آب ہیں۔ یہ صورتحال ایک بڑے بحران کی نشاندہی کرتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زراعت کی بحالی کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات اور امداد کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت زیادہ تر چھوٹے کسان نہ صرف اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ ان کے مویشی اور فصلیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو فوری ہنگامی حالات کا اعلان کرکے غیر ضروری بالخصوص لگژری اشیاء کی درآمدات پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ ملک کیلئے سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ انڈسٹری کی ضرورت پوری کرنےکیلئے روئی، دھاگہ اور یارن کی درآمدات میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

واضح رہے کہ حالیہ سیلاب سے پہلے رواں سال پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 18 سے 20 ارب ڈالر تک اضافے کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن کپاس کی عدم دستیابی اور پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے اب اس حوالے سے چھ ارب ڈالر کی کمی کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت کی ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم کے تحت ایسے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز جو اپنی پیداوار کا 80 فیصد یا اس سے زیادہ برآمد کرتے ہیں انہیں کاٹن یارن کی درآمد کے ساتھ ساتھ مقامی مارکیٹ سے خریداری پر سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دے۔ اس سے ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹرز کیلئے پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور مقامی اسپنرز کو نقصان پہنچائے بغیر ان کی مسابقت میں بھی اضافہ کیا جا سکے گا۔

علاوہ ازیں مون سون کی شدید بارشوں اور انڈیا کی طرف سے دریائوں میں اضافی پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے آنے والے حالیہ سیلاب کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے زراعت کے شعبے کی ہنگامی بنیادوں پر بحالی بھی اشد ضروری ہے۔ محکمہ شماریات کے مطابق زراعت کا شعبہ مجموعی قومی پیداوار میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالنے کے علاوہ مجموعی افرادی قوت کے تقریباً پچاس فیصد حصے کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس لئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ابھی سے سر جوڑ کر ہنگامی بنیادوں پر کئے جانے والے اقدامات کا لائحہ عمل تیار کرنے کے ساتھ ساتھ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کی انڈسٹری اور زراعت کا شعبہ آپس میں جڑا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک کی بہتری دوسرے کیلئے امید پیدا کرتی ہے۔ اس لئے اگر انڈسٹری کا پہیہ چلتا رہے گا تو زراعت کا مستقبل بھی محفوظ رہے گا اور کھیتوں میں پسینہ بہانے والے کسان کو یہ فکر نہیں رہے گی کہ اس کی اگائی گئی اجناس کی اسے مناسب قیمت نہیں ملے گی۔ اس وقت کسی مخصوص سیکٹر کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے قومی مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی یکجہتی کے ذریعے سیلاب سے پیدا ہونے والے بحران کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔

تازہ ترین