• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9 ستمبر کی دوپہر 3:46 بجےاسرائیل نے قطر میں امریکی ایماء پر امن مذاکرات کے لئے موجود حماس قیادت پر حملہ کر کے جی سی سی کی سات بادشاہتوں میں سے قطر سے آغاز کر دیا۔قطر تیل وگیس کے معدنی ذخائر سے مالا مال ایک چھوٹا سا عرب ملک ہے جس کی کل آبادی 29 لاکھ ہےجس میں تین لاکھ مقامی قطری جبکہ 26 لاکھ تارکینِ وطن ہیں۔اتنی کم آبادی کے باعث قطر کو دوسرے عرب ممالک سے اپنی بقاء کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے، اسی لیے قطر نے اپنے تحفظ کی ضمانت پرمعاہدے کے تحت اربوں ڈالر سے بنا اپنا ائیر بیس امریکہ کو دیا ہوا ہے۔اسرائیلی حملے پر صدر ٹرمپ نے پہلے تو لاعلمی ظاہر کی،پھر بتایا کہ انہیں دیر سے پتہ چلا تو انہوں نے فوراً قطر کو اطلاع کروائی لیکن یہ نہ بتایا کہ تب تک حملہ شروع ہو چکا تھا اور امریکی و برطانوی طیاروں نے قطر بیس سے اڑان بھر کر ہوا میں اسرائیلی طیاروں کو واپسی کے لئے ایندھن بھی فراہم کیا تھا۔ ادھر امریکی ترجمان نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور مردار اسرائیلیوں کی لاشوں کی واپسی پر بھی زور دیا۔جھوٹ بولنے میں صدر ٹرمپ کا کوئی ثانی نہیں لیکن اس جھوٹ کے واسطے وہ کوئی معقول بات نہ گھڑ سکے۔ان کی لنگڑی لولی منطق اور قطر کو آئندہ کے لیے حملہ نہ ہونے کی  یقین دہانیاں سب بیکار رہیں جب "شیطن یاہو" نے حملے کے بعد اپنے خطاب میں واشگاف الفاظ میں قطر سمیت ہر اس ملک پر حملہ کرنے کی دھمکی دی جہاں حماس کی قیادت پناہ لے گی۔ جنگی جرائم کا مرتکب، دہشتگرد، ناجائز اور غیر قانونی قابض، چھوٹے سے ملک اسرائیل کا بدمعاش اور کرپٹ سربراہ ’’شیطن یاہو‘‘جو اپنی بقاء کے لئے امریکہ کا مرہونِ منت ہے ایسے دیدہ دلیری سےٹرمپ کے برعکس بیان دیتا ہے کیونکہ امریکہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں جنکی مسلمانوں و فلسطین پر ایک رائے اور حکمتِ عملی ہے۔قیاس ہے کہ حماس قیادت جو صدر ٹرمپ کے امن فارمولے پر بات کرنے کے لئے دوحہ میں موجود تھی کو امریکہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مروا کر غزہ پر مکمل قبضہ کروانا تھا۔اس ناکام واردات سے نہ صرف جنگ بندی، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں سامانِ رسد پہنچانے کی کاوشوں کو نقصان پہنچا بلکہ خطے میں اتحادیوں کے اعتماد کو بھی شدید دھچکہ پہنچا جسےقطر نے دھوکہ قرار دیا۔ اسرائیل حماس کی ایسی قیادت کو نشانہ بناتا ہے جو جنگ بندی پر آمادہ یا مزاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی داعی ہو۔ ماضی میں اسرائیل عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتا رہا اور اب بھی فلسطینیوں کی نسل کشی، جبری نقل مکانی اور مصنوعی قحط پیدا کر کے عالمی قوانین اور انسانیت کی پاسداری نہیں کررہا۔ دراصل"شیطن یاہو" امن، جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لئے صرف زبانی جمع خرچ کرتا ہے حقیقتاً وہ یرغمالیوں کی رہائی نہیں چاہتا کیونکہ ان کے بہانے وہ جنگ جاری رکھ کر" گریٹر اسرائیل"کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ عالمی قوانین سے خود کو مستثنی سمجھنے والا یہ دہشت گرد صرف ایک ہفتے میں پانچ اسلامی ممالک پر حملہ آور ہوا ۔آج غزہ میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور معصوم بچوں کے قتلِ عام کے باعث اسرائیل اپنی مظلومیت کی شناخت کھو کر دنیا بھر میں قابلِ نفرت، ظالم، جنونی اور انسانیت کے قاتل کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

قطر پراسرائیلی حملے کو امریکہ نے" بدقسمتی" قرار دیا البتہ اسے منطقی اور باجواز کہا۔ادھر قطر حملے پر بلائے گئے اقوامِ متحدہ کے سیکیورٹی کونسل کے ایمرجنسی اجلاس میں امریکہ اور برطانیہ نے دوغلے پن اور منافقت کی انتہا کردی جب اس نے قطری مؤقف کے دفاع کے بجائے اسے  بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا۔امریکی مندوب نے قطر پر حملے کی مذمت کرتے ساتھ ہی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے حماس پر بدامنی اور سب خرابیوں کا ملبہ ڈال دیا۔بعینی برطانوی مندوب نے بھی سرسری طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے حماس کو نشانے پر رکھ لیا، مطالبہ کیا کہ حماس جنگ بندی کرکے ہتھیار ڈال دے تاکہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کو تحفظ دیا جا سکے یعنی ظالم و مظلوم کو بدنیتی سے برابر کر دیا۔اسرائیلی مندوب نے تین بار اسامہ بن لادن کے خلاف پاکستان میں امریکی حملے کا حوالہ دیا اور کہا کہ امریکہ کی طرح اسرائیل بھی اپنی بقاء و سلامتی کے لئے دہشتگردوں پر کہیں بھی،کسی بھی وقت حملہ آور ہونے میں حق بجانب ہے۔ سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کا اعلامیہ بھی ایک شاہکار ہے کہ اس میں قطر پر حملے کی مذمت تو کی گئی ہے لیکن حملہ آور کا نام لینے سے گریز کیا گیا۔ اعلامیہ کا لبِ لباب یہ ہے کہ قطر کی عالمی حیثیت بطور ثالث،امن کے داعی اور امریکہ کے حواری کے انتہائی کمزور کر دی گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ عرصے سے ان بدنیت اور طاقت وروں کے سامنے بے بس رہا ہے جبکہ عالمی قوانین بنانے والے یہ ممالک خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے انہی قوانین کو درخوئے اعتناء بھی نہیں سمجھتے۔علاوہ ازیں امریکہ سمیت سارے مغرب نے مسلمانوں کے خلاف اپنی جانبداری کھل کر ظاہر کر دی ہے جس کے زور پراسرائیل ایک ایک کر کے پورے مشرقِ وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری قائم کرلے گا ۔ ایسالگتا ہے کہ جی سی سی ممالک کا نمبر لگ گیا ہے بس اب اپنی باری کا انتظار ہے، آج قطر نشانے پر ہے تو کل کسی دوسرے ملک پر اسرائیل چڑھ دوڑے گا۔ ڈربے میں بند مرغیوں کی طرح جب قصائی کسی ایک کی گردن دبوچتا ہے تو باقی اطمینان کا سانس لیتی ہیں کہ وہ بچ گئیں حالانکہ وہ نہیں جانتیں کہ باری تو سب کی آئے گی۔

پاکستان کے مندوب واحد شخص تھے جنہوں نے اقوامِ متحدہ میں کھل کر اسرائیل کو آڑے ہاتھوں لیا۔پاکستان نے اسرائیل کی جانب سے اپنی ہرزہ سرائی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل حملہ آور، قابض،اقوامِ متحدہ و عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ،اس ایوان کی حُرمت پامال کرکے، دوسروں پر انگلی اٹھا کر، اپنے غیر قانونی کاموں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کسی کی بات اور مشورہ نہیں مانتا ، عالمی کمیونٹی، میڈیا،اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بِلا خوفِ پکڑ دھمکاتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس کے سہولت کار ہیں۔فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے ایوان دہایوں سے کوششیں کر رہا ہے جو اسرائیلی ہٹ دھرمی کے باعث نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار کی دنیا معترف ہے ایسے میں غیر ذمہ دار اوربدمعاش، غزہ اور فلسطین میں بدترین ریاستی دہشتگردی کرنے والے ملک اسرائیل کو سیکیورٹی کونسل کے اعلامیہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ماشاء اللّٰہ کسی دوسرے ملک میں ایسی جرأت نہیں کہ وہ اسرائیل کو اس کا عشر ِعشیر بھی کہہ سکتا۔پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اس کی تقدیر میں اُمت ِمسلمہ کی قیادت لکھی ہے۔اس بات کا ادراک مسلمان دشمنوں کو تو اچھی طرح ہے اسی لئے وہ ہمیں معاشی طور پر بدحال رکھنا چاہتے ہیں۔ ﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں واضح کردیا کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتےتو اُمت کو اس حقیقت کا ادراک کب ہوگا؟ عرب ممالک بھی اب اس خوابِ غفلت سے اٹھیں، اتحاد بین المسلمین کی طاقت کو پہچانیں اور پاکستان کے ہاتھ مضبوط کریں یقینا ًوہ مایوس نہیں کرے گا۔انشاء اللّٰہ۔ 

؎یقیں افراد کا سرمایٔہ تعمیرِ ملت ہے

یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے

تازہ ترین