سابق وزیر اعظم اور بانیٔ پاکستان تحریک انصاف عمران خان اپنی 30سالہ سیاست میں پہلی بار پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی ’’گڈبک‘‘ میں نہیں رہے اور بظاہر یہ کشیدگی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ خان صاحب دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود جیل میں ہیں جو انکے سیاسی کریئر کی پہلی بڑی قید ہے، اس سے پہلے وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی چند دن جیل میں رہے تھے جس کے دوران انہیں نے ’’بھوک ہڑتال‘‘ بھی کی تھی۔ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر ان تعلقات میں دراڑ پڑی اور اب بات تقریباً ’پوئنٹ آف نو رٹرن‘پر ہے۔ اس صورتحال کا اگر کسی کو صحیح معنوں میں سیاسی فائدہ ہوا ہے تو مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کو ورنہ حقیقت یہ ہے کہ 8فروری 2024 کو اصل انتخابی نتائج نے برسوں سے قائم ’’تخت لاہور‘‘ کو شکست دی اور وہ بھی جمہوری انداز میں مگر آڑے فارم47- آ گیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کے اگر خان صاحب 2018ء میں ’’گڈبک‘‘ میں نہ ہوتے تو شائد وہ قائد حزب اختلاف ہوتے۔ آئیں اک تقابلی جائزہ لیں ان تعلقات کا، عمران کی ابتدائی سیاست سے لیکر آج تک۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ تاریخ کا حصہ ہونگے یا نئی تاریخ رقم کرینگے۔ اب تک انہوں نے اپنے ناقدین کو غلط ثابت کیا ہے جو کہتے تھے کہ وہ ’چند دن‘ بھی جیل میں نہیں گزار سکتا۔
پاکستان میں سیاسی پروجیکٹ بنانے کی مستند، فیکٹری موجود ہے مگر تاریخی حوالے سے زیادہ تر پروجیکٹ اس لحاظ سے ناکام رہے کہ انکے تعلقات اکثر اس مقام پر پہنچے کے انہیں جیل، قید و بند کی صوبتیں برداشت کرنا پڑیں، کچھ کا اختتام ڈیل پر ہوا جیسا کہ میاں نواز شریف کے کیس میں ہوا۔ عمران خان کو اپنے وقت کی مقتدرہ کی حمایت 2011ء کے بعد حاصل ہوئی۔ ابتدائی برسوں میں جب پاکستان تحریک انصاف کی 1996ء میں بنیاد رکھی گئی اس وقت تک خان پروجیکٹ نہیں تھا۔ 1993ء میں البتہ اس کو ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے اپنی ممکنہ سیاسی جماعت کا حصہ بنانے کی کوشش کی مولانا عبدالستار ایدھی کیساتھ مگر یہ تعلقات جلد ہی ختم ہو گئے۔ 1996ءمیں جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں بیشتر لوگ عمران کے ذاتی دوست تھے اور شائد ہی کوئی سیاسی تجربہ رکھتا ہو۔ حامد خان کو وکیلوں کی سیاست اور نجیب ہارون کو طلبہ سیاست کا۔ یہی وہ وقت تھا جب مقتدرہ کبھی نواز شریف تو کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حمایت کرتی۔ پھر دونوں کو ہی ایک ہی جیسے الزامات جن میں سر فہرست کرپشن کا الزام ہوتا بنیاد بنا کر 58-2(B) کے ذریعے برطرف کر دیا جاتا۔ یہ اختیار صدر مملکت کو جنرل ضیاء کے وقت میں حاصل ہوا۔ اسکا پہلا شکار محمد خان جونیجو، پھر بے نظیر بھٹو، پھر نواز شریف اور پھر بینظیر بھٹو اور پھر 1997ءمیں پارلیمنٹ نے اس شق کو آئین سے نکال دیا۔ 12اکتوبر 1999ءکو جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے درمیان اختلافات حد سے بڑھ گئے اور وزیر اعظم نے آرمی چیف کو برطرف کیا تو ان کے حامی آرمی افسران نے حکم مانے سے انکار کر دیا اور یوں میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب پہلی بار عمران خان صحیح معنوں میں سیاسی میدان میں آئے اور جنرل مشرف کی حمایت کی، بلاواسطہ حمایت تو بے نظیر بھٹو نے بھی کی مگر عمران نے مشرف کے سات رکنی نکات کی مکمل تائید کی جبکہ بی بی نے فوری الیکشن کا مطالبہ کیا۔ یوں جنرل مشرف کے قریبی ساتھیوں نے، جن میں جنرل احتشام ضمیر بھی شامل تھے خان کو اپنی سیاسی ٹیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم 2002ءمیں گجرات کے چوہدریوں نے عمران کے آگے جانے کا رستہ روکا جس پر خان نے ناراضی کا اظہار کیا اور یوں عمران اور مشرف مقتدرہ کی دوستی اور تعلقات کا اختتام ہوا۔
عمران کو ماسوائے اپنے آبائی حلقہ میانوالی کے سوا کہیں سے انتخابی کامیابی نہ ملی حالانکہ میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں کو اس ریس سے باہر کر دیا گیا تھا۔ مقتدرہ بی بی اور نواز شریف کے درمیان ’میثاق جمہوریت‘ سے پریشان تھی جو 2006ء میں ہوا تو دوسری طرف مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے تعلقات بھی مشرف سے تقریباً ختم ہو گئے تھے جب انہوں نے وعدہ کے مطابق 2004ء میں آرمی چیف کے عہدہ سے ریٹائرمنٹ نہ لی۔ لہٰذا ایک طرف مقتدرہ نے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی کے ذریعہ مسلم لیگ (ن) کو کمزور کیا تو دوسری طرف بے نظیر بھٹو کے ساتھ ’ڈیڈ لاک‘ ختم کیا۔ تاہم عمران خان انفرادی طور پر بڑی آواز بن رہے تھے خاص طور پر مشرف کی افغان پالیسی کے حوالے سے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور جنرل پرویز مشرف کے استعفے نے سیاست کو ایک نیا رخ دیا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اک بیان نےکہ ’فوج انتخابات میں غیر جانبدار رہے گی‘۔ ایک طرف مسلم لیگ(ن) کو کمزور کیا تو واضح طور پر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کا راستہ صاف کیا۔تاہم محترمہ کی شہادت نے ایک بڑا سیاسی خلا پیدا کیا اور پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے اتحاد نے اپوزیشن کے طور پر پی ٹی آئی اور عمران کو سیاسی فائدہ پہنچایا۔
2011 ء میں عمران خان تیسرے آپشن کے طور پر سامنے لائے گئے اور 2013ء میں پہلی بار انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اچھی خاصی نشستیں ملیں۔ یہاں تک کہ کے پی میں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ لہٰذا اس وقت کی مقتدرہ کے کچھ اہم کرداروں نے جو مسلم لیگ (ن) کے بارے میں سخت رویہ رکھتے تھے عمران کو تحریک چلانے کا مشورہ دیا یہاں تک کہ انہیں ایم کیو ایم کی حمایت کا بھی یقین دلایا گیا مگر بانی ایم کیو ایم نے اس بنا پر حمایت نہ کی کہ جنرل راحیل شریف اس معاملے میں نہیں تھے۔ یہ ابتدا تھی نواز شریف کی رخصتی اور عمران کی آمد کی جو آخر کار 2018 ء میں پوری ہوئی جب عمران پہلی بار وزیر اعظم بنے گو کہ انکے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں تھی مگر یہ کمی اس وقت ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور جنوبی پنجاب محاذ سے پوری کی گئی۔ پھر انہی جماعتوں کو خود خان صاحب کے حکومت کے خاتمہ کیلئے بھی استعمال کیا گیا اپریل 2022ء میں ۔عمران خان کو 2011ء کے بعد سے عوامی حمایت ہمیشہ حاصل رہی جس میں خاص طور پر نوجوان اور پی پی پی، مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کی بڑی تعداد اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے تعلقات بہتر نوعیت کے مگر شائد خان ISI کے سربراہ جنرل فیض پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کر نے لگے جو آگے جا کر بنیاد بنی ان تعلقات کے خاتمہ کی۔
عمران کو توقع تھی کہ انکے برطرفی کیخلاف بڑا عوامی ردعمل آئے گا۔ تاہم مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی نااہلیوں نے اسے ایک بار دوبارہ مقبولیت تو دے دی مگر احتجاج کی صورت میں بڑا ردعمل سامنے نہ آیا۔ جسکی بڑی وجہ ریاست کی سختی اور پی ٹی آئی کی تنظیمی خامیاں مگر سب سے بڑھ کر 9مئی 2023ء کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال ۔ یہ کوئی گہری سازش تھی مقتدرہ اور عمران کی راہیں ہمیشہ کیلئے جدا کرنے کی یا پی ٹی آئی کسی انقلاب کی منتظر، جو بھی تھا اس نے تمام راستے بند کر دیئے۔ حکومت تو صرف اس سے سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہے ورنہ تو 8فروری کو پی ٹی آئی کے حکومت بن سکتی تھی۔
عمران خان بھی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور عام تاثر یہی ہے کہ کسی بھی آزادانہ الیکشن میں انکی کامیابی کے قومی امکانات آج بھی موجود ہیں، تاہم آج کی صورتحال میں دونوںطرف غیر لچک دار رویہ موجود ہے اور شائد بات ’معافی‘ سے آگے نکل گئی ہے۔
عمران نے کئی محاذ پر اپنے سیاسی ناقدین کو غلط ثابت کیا ہے مگر کئی بڑی سیاسی غلطیاں بھی کی ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک کےایک مقبول لیڈر اور جماعت کو اس طرح غیر اعلانیہ طور پر ہی سہی سیاست سے باہر کر کے استحکام لایا جا سکتا ہے اس پر پھر کبھی۔