• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سڑک پر ٹریفک رواں دواں ہے، گاڑیاں آ جا رہی ہیں، ہر شخص اپنی لین کی پاسداری کر رہا ہے، لال بتی پر رُک رہا ہے، سبز پر چل پڑتا ہے، پیدل چلنے والوں کو راستہ دے دیتا ہے۔ اِس نظم و ضبط کے دوران اچانک ایک سائیکل سوار چپکے سے ون وے کی خلاف ورزی کرتا ہے مگر اِس انداز میں کہ کسی کو محسوس نہ ہو، وہ سڑک کے کنارے پر سائیکل چلاتا ہوا دوسری جانب نکل جاتا ہے۔ تاہم ٹریفک کی روانی میں کوئی فرق نہیں آتا، سب اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اگلے ہفتے ایک موٹر سائیکل سوار یہ حرکت کرتا ہے، کچھ ماہ بعد ایک گاڑی والا بھی غلط طرف سے گاڑی نکالنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر دیکھا دیکھی ہر شخص ون وے کی خلاف ورزی کرنے لگتا ہے اور یوں اُس سڑک پر یہ بات نارمل ہو جاتی ہے۔ چند ماہ مزید گزرتے ہیں تو لوگ ٹریفک کے اشارے کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں، پھر ہڑبونگ سی مچ جاتی ہے، وہی شاہراہ جہاں ہر شخص ڈسپلن کے ساتھ گزرا کرتا تھا اب اندھا دھند گزرتا ہے، وہاں حادثات ہونا شروع ہو جاتے ہیں، کچھ لوگ مارے بھی جاتے ہیں مگر کسی کو فرق نہیں پڑتا، سب اندھے ہو چکے ہیں۔

انگریزی میں اِس عمل کو Creeping Normality کہتے ہیں یعنی ایسی بات جو غیر محسوس طریقے سے معمول بن جائے۔ بچہ روتا ہے، ہم اسے بہلاتے بہلاتے تھک جاتے ہیں اور پھر تنگ آ کر تھوڑی دیر کیلئے اسے موبائل فون پر کارٹون لگا دیتے ہیں، بچہ فوراً چُپ ہو جاتا ہے، پانچ دس منٹ بعد سو جاتا ہے۔ مگر جو بات پانچ منٹ سے شروع ہوتی ہےوہ دھیرے دھیرے گھنٹوں تک پھیل جاتی ہے، اور اسکول کی عمر تک پہنچنے تک بچہ موبائل فون کا ویسے ہی عادی ہو جاتا ہے جیسے یہ کوئی نشہ ہو۔ یعنی ابتدا میں جو بات بے ضرر لگتی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ غیر محسوس طریقے سے یوں آپ کی زندگی میں دخیل ہو جاتی ہے کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کب آپ بے بس ہو گئے اور اب اُس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ جب انٹرنیٹ عام ہوا تو ای میل اکاؤنٹ بھی لازم ہو گیا، اکاؤنٹ بنانے کیلئے دو چار باتیں پوچھی جاتی تھیں، ہم بے دھڑک بتا دیتے تھے، کھاتہ کھُل جاتا تھا۔ پھر فیس بُک آیا، اُس نے مزید ذاتی تفصیل مانگی، ہم نے وہ بھی دیدی، اُسکے بعد انسٹاگرام، پھر سنیپ چیٹ اور پھر چل سو چل۔ ہم نے برضا و رغبت نہ صرف اپنی ذاتی معلومات اِن کمپنیوں کو فراہم کر رکھی ہیں بلکہ اپنے اکاؤنٹ بھی عوام کیلئےکھول رکھے ہیں۔ یعنی جو بات بے ضرر سی ای میل سے شروع ہوئی تھی وہ اب تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اب واپسی ممکن نہیں۔ ناجائز تجاوزات کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ پہلے دریا کے کنارے ایک کھوکھا بنتا ہے، کوئی نہیں پوچھتا، پھر دوسرا بنتا ہے، لوگ سوچتے ہیں کہ اِس میں کیا غلط ہے، بے ضرر سی بات ہے، کسی غریب آدمی کی روزی لگ گئی ہے، اُسکے بعد غیر قانونی دکان تعمیر کی جاتی ہے، پھر بغیر اجازت کے ہوٹل تعمیر کر دیا جاتا ہے۔ پورا عمل غیر محسوس طریقے سے یوں انجام پاتا ہے کہ لوگ اسے غلط ہی نہیں سمجھتے اور پھر ایک دن وہ تمام تعمیرات سیلاب میں بہہ جاتی ہیں۔

Creeping Normalityکا یہ عمل صرف لوگوں کی ذاتی یا اجتماعی زندگیوں کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اِس سے سوسائٹی کا تانا بانا بھی بکھر جاتا ہے اور عظیم الشان سلطنتوں کے زوال کا باعث بھی یہی عمل بنتا ہے۔ کوئی بات نہیں، جانے دو، مٹی پاؤ، جیسے مشورے بظاہر نیک نیتی کے ساتھ دیے جاتے ہیں مگر اِن کا نتیجہ خطرناک نکلتا ہے۔ جس دن کوئی بچہ قانون کی پہلی خلاف ورزی کرتا ہے اور قانون کی گرفت میں نہیں آتا اُس روز اُس کے دل و دماغ سے قانون کا خوف ختم ہونا شروع ہو جاتاہے، پھر وہ دوسری خلاف ورزی کرتا ہے اور پھر تیسری۔ اُسے لگتا ہے کہ معاشرے میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں، پھر جب وہ کوئی بڑا جُرم کرتا ہے تو پولیس گرفتار کر لیتی ہے مگر اُس وقت تک اُسے یقین ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اِس نظام کو شکست دے کر باہر آ جائے گا اور بعض اوقات ایسا ہی ہوتا ہے۔اسکول کے زمانے میں ہم سلطنت مغلیہ کے زوال کے اسباب پڑھا کرتے تھے، وہ زوال ایک دن میں نہیں آیا، وہ اسی Creeping normality کا ہی نتیجہ تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں غلط پارکنگ کرنے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، آپ لاکھ دہائی دیں، منت سماجت کریں، دھمکی دیں، کوئی معافی نہیں ملتی، کیونکہ جس دن انہوں نے ایک بھی گاڑی کا جرمانہ معاف کیا اُس دن یہ ’بے ضرر‘ سی رعایت اُن کے نظام میں سرایت کر جائے گی اور اسے دیمک کی طرح چاٹ لے گی۔

ایک نظر اپنے ارد گرد دوڑائیں، ہم ایک دوسرے کو کیسی ’بے ضرر‘ رعاتیں دیتے رہتے ہیں اور اُس کے بعد ماتم کرتے ہیں کہ ملک کا یہ حال کیوں اور کب ہو گیا۔ ایک اور مثال یاد آ گئی۔2005 میں سوات میں ایک غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل قائم کیا گیا تھا، یہ ریڈیو چینل مولوی فضل اللہ نے قائم کیا تھا، وہ اُس چینل پر ریاستی اداروں کے خلاف خطبے دیتے تھے اور لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف بھی خوب بولتے تھے، شعلہ بیان تھے، چینل بے حد مقبول ہو گیا اور اُن کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے سوات کے مختلف علاقوں میں ’شریعت‘ کے نفاذ کے عملی اقدامات بھی شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوات پر ریاستی رِٹ ختم ہو گئی، اور پھر بالآخر فوج کو2009 میں سوات میں فوجی آپریشن کرنا پڑا جسکے بعد سوات کے حالات نارمل ہوئے۔ گویا جو بات ایک بے ضرر سے ایف ایم ریڈیو سے شروع ہوئی تھی وہ فوجی آپریشن پر مُنتِج ہوئی۔جس دن وہ غیر قانونی ریڈیو اسٹیشن شروع ہوا تھا اگر اسی دن وہ بند کرکے اُس بندے کو گرفتار کر لیا جاتا تو نہ سینکڑوں جانیں ضائع ہوتیں اور نہ فوجی آپریشن کرنا پڑتا۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی ہیں، بے ضرر رعایتیں دے دے کر ہم نے اِس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں اور اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کریں اور کہاں سے ختم کریں۔ ظاہر ہے کہ اِس بات کا کوئی ایسا آسان یا فوری حل تو ہے نہیں کہ جس پر عمل کرکے ہم نارمل ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی ترجیحات کا تعین کر لیں اور اُن میں پوری ریاستی قوت لگا دیں۔ پہلا، دہشت گردی، اِس عفریت کا اسی طرح مقابلہ کرکے خاتمہ کریں جیسے حضرت علیؓ نے خارجیوں کا نہروان کی جنگ میں کیا تھا۔ دوسرا، معیشت اور تیسرا ماحولیاتی تبدیلی۔ اگر ہم نے اِن مسائل کے حل میں عدم برداشت کی پالیسی اپنا لی تو اگلے دو چار برس میں نارمل ہونا شروع ہو جائیں گے، ورنہ ہمارے پاس اب غلطی اور رعایت دینے کی گنجائش نہیں۔

تازہ ترین