• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک ایسی تقریب میں بیٹھا تھا جہاں سینکڑوں لوگ موجود تھے۔ ماحول میں ایک سنجیدگی اور تجسس کی فضا تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ہال میں داخل ہوئے۔ لمحہ بھر کے اندر ہی جیسے ہوا کا رخ بدل گیا۔ اور پھر جب انہوں نے تقریر شروع کی تو سامعین کے چہرے بدل گئے۔ الفاظ یوں برس رہے تھے جیسے بجلیاں کڑک رہی ہوں، اور ہر جملے کے ساتھ پورا مجمع چونک اٹھتا تھا۔ ان کا خطاب اتنا پرجوش تھا کہ لوگ سنتے ہی رہ گئے۔ اور جب وہ بولے’’کراچی سندھ کے ریونیو کا ستانوے فیصد اور وفاق کے خزانے کا ساٹھ فیصد دیتا ہے، مگر اس کے عوام کو بدلے میں کیا ملتا ہے؟ صرف محرومیاں، صرف ناانصافیاں۔ یہ سو اسکول صرف اینٹ اور پتھر نہیں، یہ انصاف کی بنیاد ہے۔ کراچی کے بچوں کو تعلیم دینا دراصل انکو ان کا حق دینا ہے۔‘‘ ہال میں جیسے بجلی سی دوڑ گئی۔ میں حیران تھا کہ برسوں بعد بھی ان کے لہجے میں وہی پرانی حرارت، وہی حق پرستی اور وہی عوامی درد باقی ہے جو کراچی کی تحریک کی پہچان تھی۔ڈاکٹر خالد کا خطاب محض رسمی نہیں تھا۔ وہ بار بار ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے تھے کہ کراچی کے ساتھ مزید ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ سو غیر رسمی اسکول صرف آغاز ہیں، ابھی تو اصل سفر باقی ہے۔ ان کے مطابق کراچی میں جلد ہی پانچ سو سلم اسکول کھلنے جا رہے ہیں، جو ان بچوں کے لیے ہوں گے جو کچی بستیوں اور غریب محلوں میں تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا:’’یہ شہر صرف پوش علاقوں تک محدود نہیں۔ ان سلم ایریاز کے بچے بھی اس کے حق دار ہیں کہ وہ قلم تھامیں اور مستقبل کے انجینئر اور ڈاکٹر بنیں۔ ہم ان کیلئے دروازے کھول رہے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اسی مہینے کراچی میں تین نئی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھل رہے ہیں۔ یہ خبر سن کر حاضرین کے چہروں پر ایک خوشگوار حیرت چھا گئی۔ ڈاکٹر خالد نے کہا’’کراچی صرف مزدور نہیں دیتا، یہ سائنسدان، ماہرین اور ڈاکٹرز بھی پیدا کرے گا۔ نئی یونیورسٹیاں اس خواب کو حقیقت میں بدلیں گی۔‘‘ان کی تقریر میں امید کی ایک تازگی تھی جو یوں محسوس ہوتی تھی جیسے ایک اندھیرے کمرے میں اچانک کھڑکی کھل جائے اور روشنی اندر آ جائے۔ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ محض وزیر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تحریک کے نمائندے کے طور پر بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا’’یہ میرا یا میری وزارت کا کام نہیں، یہ ان سب لوگوں کی کامیابی ہے جو سچ اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ میں ہر ذمے دار شہری سے کہتا ہوں کہ کم از کم ایک اسکول کو اپنائیں، تاکہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔‘‘ان کے یہ الفاظ سن کر مجھے وہ پرانے دن یاد آئے جب کراچی کی گلیوں میں حق پرستی کی گونج سنائی دیتی تھی۔ آج وہی گونج ایک نئے رنگ میں تعلیم کے ذریعے سامنے آ رہی تھی۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر خالد صرف باتیں نہیں کر رہے بلکہ عملی اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ پہلے سو اسکول کھلے، اب پانچ سو سلم اسکولوں کا منصوبہ، اور تین نئی یونیورسٹیوں کے کیمپس کا قیام۔ یہ سب کچھ مختصر وقت میں ہو رہا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وزارت تعلیم اب محض فائلوں اور دفاتر تک محدود نہیں بلکہ میدانِ عمل میں ہے۔اعداد و شمار اس کہانی کو مزید پختہ کرتے ہیں۔ یونیسف کے مطابق کراچی میں لاکھوں بچے آج بھی اسکولوں سے باہر ہیں۔ مردم شماری میں شہر کی آبادی کو دانستہ کم دکھایا گیا جسکے باعث وسائل کی تقسیم ہمیشہ غیر منصفانہ رہی۔ جب گندم اور پانی پندرہ ملین کی بنیاد پر فراہم ہوں جبکہ اصل آبادی ساڑھے تین کروڑ ہو تو شہر کے عوام محروم ہی رہیں گے۔ ڈاکٹر خالد نے ان ناانصافیوں پر کھل کر آواز بلند کی اور اس کے ساتھ عملی حل بھی پیش کیا۔تقریب کے اختتام پر میرے دل میں ایک نیا یقین پیدا ہو رہا تھا۔ اگر یہ سفر اسی رفتار سے جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب کراچی کے کچرا چننے والے بچے کتاب ہاتھ میں لیں گے، جب سلم ایریاز کے نوجوان یونیورسٹیوں میں بیٹھے ہوں گے، اور جب یہ شہر اپنے حصے کے حقوق پائے گا۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے تعلیم کو انصاف کا ہتھیار بنا دیا ہے۔ یہ سو اسکول، پانچ سو سلم اسکولوں کا منصوبہ اور تین نئی یونیورسٹیاں صرف تعلیمی منصوبے نہیں بلکہ ایک انقلاب کا آغاز ہیں۔

تازہ ترین