آج اچانک بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ میں اپنی تحریروں میں لوگوں کو اکثر ’قیمتی‘ مشورے دیتا رہتا ہوں حالانکہ سب سے زیادہ تو مجھے خود مشوروں کی ضرورت ہے۔ یہ فقرہ لکھنے سے پہلے میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ یہ ’اعتراف‘ کروں یا نہ کروں کیونکہ اِس قسم کی عاجزی مروجہ ’کالمانہ شان‘ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اپنے ہاں تو کالم نگار چاہے روزنامہ کالک میں ہی کیوں نہ لکھتا ہو وہ خود کو رومن دانشور بادشاہ مارلس اوریلیوس سے کم نہیں سمجھتا اور عوام الناس اور حکمرانوں کو ایسے ایسے پند و نصائح سے نوازتا ہے کہ بندہ سوچتا ہے کہ اِس کالم نگار کی سفارش کرکے اسے روزنامہ کالک سے ہفت روزہ ماموں کانجن کا ایڈیٹر لگوا دینا چاہیے۔ خیر، یہ بات تو یونہی بیچ میں آ گئی، آج میں نے اپنی ذات کو کچھ سنجیدہ اور غیر سنجیدہ مشورے دینے کا فیصلہ کیا ہے، اِن مشوروں کے جملہ حقوق محفوظ نہیں ہیں، اگر آپ بھی استفادہ کرنا چاہیں تو بسم اللہ، صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے، تو اگر میرا نہیں بن سکتا تو اپنا بھی نہ بن، وغیرہ وغیرہ۔
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں لوگوں سے بحث نہیں کروں گا، یہ فیصلہ میں ہر تین ماہ بعد کرتا ہوں مگر عمل نہیں کر پاتا، میں حسنِ ظن سے کام لے کر سوچتا ہوں کہ اگر میری بات مدلل ہے تو کیوں نہ میں دوسرے کا بھلا کر دوں، مگر اب سوچ لیا ہے کہ خواہ مخواہ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جس بندے نے دلیل سے متاثر ہونا ہو وہ پہلے آپ کی بات توجہ سے سنتا ہے، سوال کرتا ہے اور پھر اپنی رائے بناتا ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر بحث سے اجتناب کرنا چاہیے، اور میں آئندہ یہی کروں گا۔ اپنے لیے دوسرا مشورہ یہ ہے کہ بھانت بھانت کی بولیاں سننے کی بجائے اُس بات پر توجہ دی جائے جو خالصتاً علمی اور تحقیقی ہو، آج کل خبروں کا سیلاب آیا ہوا ہے، ہر طرف شور و غوغا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، ایسے میں کسی اہم مسئلے پر درست رائے بنانے کیلئے ضروری ہے کہ کسی محقق قسم کے لکھاری کے مضامین پڑھے جائیں نا کہ بھوسے میں سے سوئی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ تیسرا مشورہ یہ ہے کہ منافقت سے کام لیا جائے۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب لگے لیکن میں نے تجربے سے یہی سیکھا ہے۔ تھوڑی بہت منافقت تو خیر ہر کسی میں ہوتی ہے کہ اُس کے بغیر کام نہیں چلتا، اگر وہ منافقت نہ ہو تو رشتہ دار ایک دوسرے کو منہ لگانا ہی چھوڑ دیں۔ لیکن میں اب اُس سے ایک درجہ اوپر کی منافقت سے کام لینے کا سوچ رہا ہوں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ سچی بات صرف اُس صورت میں سننا پسند کرتے ہیں اگر اُن کا براہ راست فائدہ ہو۔ اگر آپ منافقت سے کام لیے بغیر انہیں منہ پر کہہ دیں کہ آپ کا کام میرٹ پر نہیں ہو سکتا تو وہ آپ کے رویے کو دس میں سے صفر نمبر دیں گے، لیکن منافقت کی وجہ سے آپ کو ’پاسنگ مارکس‘ مل سکتے ہیں۔ اب فیل ہونے کا شوق تو کسی کو نہیں ہے، لہٰذا اے منافقت تیرا ہی آسرا ہے۔
چوتھے مشورے پر میں پہلے ہی عمل کر رہا ہوں لیکن اب سوچا ہے کہ اِس پر مزید سختی سے کاربند رہوں گا اور وہ ہے انکار کا اقرار۔ کچھ لوگ ’نہ‘ نہیں کہہ سکتے، چاہے کوئی کام اُن کے بس میں ہو یا نہ ہو، انہیں پسند ہو یا نہ ہو، اگر انہیں کوئی وہ کام کہہ دے تو اُن میں وہ جرات نہیں ہوتی کہ شائستگی سے انکار کر سکیں، اور اقرار کرنے کا نتیجہ وقت اور تعلق کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پُرمسرت زندگی کیلئے ضروری ہے کہ بندہ اُن کاموں سے انکار کرے جو وقت کی بربادی کا باعث بنیں یا جنہیں کرنے سے آپ اپنے مقررہ کردہ ہدف سے پرے ہٹ جائیں۔ ہمارا وقت بہت قیمتی ہے اسے یوں ہر کسی کیلئے قربان نہیں کیا جا سکتا سو لوگوں کی مدد ضرور کریں مگر وہ مدد خود آپ کیلئے وبال جان نہ بن جائے، اِس سے پہلے کہ وہ مرحلہ آن پہنچے، خود سے اقرار کریں کہ اب انکار کرنا ہے۔ نہ کہنا سیکھیں۔ پانچویں بات مشورے سے زیادہ حقیقت ہے اور وہ ہے موت کو قبول کرنا۔ موت سے خوف کھانے کی بجائے ہر اُس لمحے کو استعمال کریں جو موت سے پہلے ہمارے پاس موجود ہے، موت سے فرار تو ممکن ہی نہیں، لہٰذا جتنی زندگی ہے اُس کو پُرلطف انداز میں گزاریں۔ یہ احساس زندگی میں قدرے دیر سے ہوتا ہے، لیکن جب بھی ہو جائے غنیمت جانیں، اور یہ مت سوچیں کہ اب تو آدھی زندگی گزر گئی کیونکہ اگر آپ یہی سوچتے رہے تو بقیہ آدھی بھی نوکری کرتے ہی گزر جائے گی۔
چھٹے مشورے پر میں نے عمل کرنے کی کافی کوشش کی مگر تا حال مکمل کامیابی نہیں ملی اور وہ مشورہ ہے انٹرنیٹ سے دور رہنا، اِس میں موبائل فون، لیپ ٹاپ، ای میل، سوشل میڈیا سب شامل ہے۔ اب اِن کےبغیر گزارا بھی نہیں اور اِنہوں نے زندگی میں ’گھڑمس‘ بھی کافی ڈال دیا ہے، آپ رات کو دوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی کر رہے ہوں تو بھی موبائل فون سے چِمٹے رہتے ہیں۔ موبائل فون کا مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ ایک مرتبہ اسے کسی ضروری اور اہم کام کیلئے اٹھا لیتے ہیں تو پھر اسے بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اُس کام کے بعد کوئی نہ کوئی ریل نظر آ جاتی ہے اور پھر چل سو چل۔ موبائل فون کی لَت سے چھٹکارا پانا ایسے ہی ہے جیسے سگریٹ سے پیچھا چھڑانا، اگر آپ سگریٹ نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں تو پھر ایک بھی سگریٹ نہیں پی سکتے، جس دن یہ سوچ کر ایک سگریٹ سُلگا لیا کہ ایک سے کیا ہوتا ہے اُس کے بعد چل سو چل۔ ساتواں اور آخری مشورہ یہ ہے کہ خوف سے چھٹکارا حاصل کریں اور یہ خوف کسی بھی قسم کا ہو سکتا ہے، ناکامی کا خوف، بریک اپ کا خوف، نوکری ختم ہونے کا خوف، کاروبار میں گھاٹے کا خوف۔ اِس کا مطلب یہ نہیں بالکل ہی لا اُبالی ہو جائیں اور زندگی میں خواہ مخواہ رِسک لیتے رہیں، مدعا صرف اتنا ہے کہ اُس خوف کو دماغ سے نکال باہر کریں جسکے بارے میں آپ کچھ نہیں کر سکتے اور جو آپ کے بس سے باہر ہے۔ زندگی میں جن باتوں کے بارے میں ہم سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے اُن میں سے اسّی فیصد کبھی ہوتی ہی نہیں اور باقی بیس فیصد کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ مشورے تو میں نے اپنی ذات کیلئے جمع کیے تھے لیکن انہیں افلاطو ن بن کرعوام الناس کیلئے لکھ ڈالا! اب اندر کا کالم نگار کسی نہ کسی طرح باہر تو آنا ہی تھا، سو برداشت کر یا پاس کر!