سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سب پر بازی لے گئے۔ ان کی بصیرت، دور اندیشی، فہم و فراست نے یک جنبشِ قلم سے دنیا کی سیاسی بساط ہی الٹا کر رکھ دی۔ قطر پر حملے پر 15 ستمبر کو ایمرجنسی اجلاس میں امیرِ قطر نے واضح الفاظ میں بتایا کہ حملے کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کرانے کے مذاکراتی وفد کی ہلاکت سے ان کاوشوں کو سبوتاژ کرنا تھا۔ صدر اردگان نے کہا کہ وہ بھی دہشت گردانہ ذہنیت کی ریاست سے نمبرد آزما ہیں جو قتل و غارت گری پر پنپتی ہے کیونکہ اس کی اقوامِ متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی پر پکڑ نہیں ہوتی ۔ مصری صدر نے اسرائیلی شہریوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات ایسے سبوتاژ ہوتے رہے تو نتیجہ بھیانک ہوگا۔ ایرانی صدر نے کہا کہ ہمیں اسرائیلی دھمکیوں کے آگے سینہ سپر ہونا چاہیےاور اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کی تجویز دی۔ عراقی وزیراعظم نے مشترکہ عرب اسلامک کمیٹی کے ذریعے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر پلیٹ فارمز پر معاملات اجاگر کرنے کی تجاویز دیں۔ اُردن کے شاہ نے تجویز کیا کہ اسرائیل کو جواب واضح، فیصلہ کن اور اسرائیلی تباہی کاری سے مانع رکھنے والا دینا چاہیے جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے عرب مسلم اتحاد، اقوامِ متحدہ اور امریکہ کی مداخلت سے بدمعاش اسرائیلی ریاست قابو کرنے کی تجویز دی۔ جبکہ وزیراعظم پاکستان نے قطر سے اظہارِ یکجہتی،فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل پر تعاون اور کھل کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی رکنیت معطل کرنے، اسے جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرانے، عرب اسلامک ٹاسک فورس بنا کر اسرائیلی توسیع پسندانہ ارادوں اور جنگ بندی کے حوالے سے تجاویز دیں۔جی سی سی کے سیکرٹری جنرل نے اپنے اسٹریٹجک اتحادی امریکہ سے اسرائیل پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کی تجویز دی ا ور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو جنگی جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرائے جبکہ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیلی تباہ کاریوں پر خاموشی جرم قرار دی اور کہا کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں پر خاموشی سےعالمی نظام کو خطرہ ہے ۔ سعودی ولی عہد نے عرب، اسلامک اور عالمی دنیا سے قطر پر ظالمانہ حملے کا جواب لینے پر زور دیا، سخت الفاظ میں اسرائیل کی مذمت کی اور قطر کے ساتھ تعاون کی پیشکش کی۔ البتہ اجلاس کے اعلامیہ میں اسرائیلی جارحانہ اقدام پر تنقیدی جملوں کے علاوہ کوئی عملی اقدام کا اعادہ نہیں تھا جس سے اسلامی دنیا مایوسی کا شکار ہوئی۔ ایسا لگا کہ جیسے او آئی سی،جی سی سی اور عرب لیگ اسرائیلی جرائم پر امریکی چھتری کے باعث عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ کو اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ نے ایک کے بعد ایک جنگ میں جھونک کر رکھا ہے جس کا مقصد خطے کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔ اس کام کے لیے مغر ب نے اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کر کے عرب ممالک کے دل میں خنجر گھونپا اور مسلسل اپنے طفیلی اسرائیل کی معاشی، دفاعی اور عالمی سیاست میں سرپرستی سے عرب ریاستوں کو کمزور کیا گیا۔ امریکہ عرب حکمرانوں کے سروں پر اپنے خاندانوں سے مسندِ اقتدار پر قبضے کے خواہشمندوں کی تلوار لٹکا کر انہیں خود مختار نہیں ہونے دیتا۔کوئی جرآت کرے تو "موساد" کے ذریعے اسے نشان ِعبرت بنا دیا جاتا ہے۔معاشی طور پر بھی عرب امریکہ اور مغرب کے آگے بے بس ہیں کہ تیل کی دولت مغربی بینکاری نظام کے تحت انہی کے پاس ہے جسے عرب حکمران اپنی مرضی سے خرچ بھی نہیں کر سکتے۔ صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر 5.5 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری ایسا خراج تھا جو نہ دیا جاتا تو کسی بہانے ضبط کر لیا جاتا۔ ماضی میں ایران، افغانستان اور دیگر کئی ممالک کی رقوم منجمد کی گئیں جو آج تک منجمد ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت ہو یا قطر پر حملہ، مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی اور دھمکیاں، "شیطن یاہو" سب امریکی آشیرباد پر کر رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں وحشت،درندگی اور چہرے پر ابلیسی مسکراہٹ غماز ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں سرشار ، کسی حد تک گر سکتا ہے، کوئی بھی حد پار کر سکتا ہے۔اسے اپنی طاقت اور امریکہ پر بھروسہ ہے کیونکہ وہ جنتاہے کہ امریکی عفریت کی جان اسرائیل کے طوطے میں ہے! درحقیقت امریکی پالیسی کو صیہونی لابی نے عرصے سے اپنے حق میں جھکا لیا ہے۔ لابی فرموں کے ذریعے خریدا گیا امریکی اثر و رسوخ اب صیہونی ریاست کے تابع ہے۔ اسرائیلی عوام کی آہ و بکا بھی بے اثر ہے کہ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب دکھا کر’’شیطن یاہو‘‘نے اسرائیلی حزبِ اختلاف کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ ایسے میں ماسوائے جوہری پاکستان کے اسے کوئی رکاوٹ نہیں نظر آرہی تھی۔اسے اندیشہ ہے کہ جب تک اسلامی مملکت پاکستان کے پاس جوہری صلاحیت ہے وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے مئی 2025میں امریکی اشارے اور صیہونی تعاون سے ہندوستان نے پاکستان کی سرکوبی کا مشن سنبھالا۔ منصوبے کے مطابق پاکستان کا پہلگام فالس فلیگ کی آڑ میں بری طرح بھرکس نکالا جانا تھا۔ پھر امریکی خدشے پر کہ ہماری جوہری صلاحیت دہشت گردوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے،یوں جنگ بندی اور ثالثی کی آڑ میں امریکہ ہماری جوہری صلاحیت کی رکھوالی اپنے ہاتھ میں لے لیتا۔ لیکن وزیراعظم اور خصوصاً فیلڈ مارشل عاصم منیر کی فراست، حکمت و دلیری نے اللہ کی رضا سے ساری سازش ہی پلٹا دی۔ چار روزہ جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑی عسکری طاقت، حجم، اثر رسوخ اور معیشت میں بھی، ہماری افواج نے ہندوستان کو ناکوں چنے چبوا دیے اوراسے بدترین شکستِ فاش دی۔
یہی وہ وقت تھا کہ جب پاکستان کی تقدیر کے دروازے کھل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حق کے لیے بدنیت دشمن کے آگے سینہ سپر ہونے پر پاکستان کو بے مثال کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عالمی دنیا میں بھی اس کےقد کاٹھ اور حیثیت میں اضافہ ہوا۔غزہ تک رسائی کے ایسے راستے کھولے جو گمان میں بھی نہ تھے۔ کہاں یہ بے بسی کہ غزہ سے ہزاروں میل دور ، دگرگوں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور ہندوستانی دہشت گردی کا شکار پاکستان جبکہ آج اس معاہدے سے غزہ سے صرف چند منٹ کی دوری! شہزادہ محمد بن سلمان نے دفاعی معاہدہ میں پہل کر کے اپنے لیے بڑا خطرہ مول لیا لیکن باقی عرب ریاستوں، ترکیہ،ایران، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان جیسے ممالک کے لیے بھی جوہری پاکستان کی چھتر چھایا میں آنے کی راہ ہموار کر دی ۔ سعودی عرب سمیت کئی ممالک پاکستان سے پہلے بھی جوہری امریکہ،جوہری برطانیہ اور جوہری فرانس سے دفاعی معاہدے کر چکے ہیں لیکن اب جوہری پاکستان سے معاہدے پر اسرائیل، ہندوستان اور صیہونی لابی کا واویلا ثابت کرتا ہے کہ ان کا’’ گریٹر اسرائیل‘‘ بنانے کا خواب اس معجزے سے خاکستر ہو گیا ہے۔ البتہ پاکستان کو اس سعادتِ مبارک’’ محافظِ حرمینِ شریفین‘‘ پر پورا اترنے کے لئے اپنے اندرونی حالات پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ یکسوئی سے باہر کی جنگیں لڑی جا سکیں۔ سیاسی عدم استحکام، بیرونی و اندرونی خلفشار، دہشت گردی اور کرپشن وہ ناسور ہیں جو پاکستان کی صلاحیتوں کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں جن کا جلد از جلد سدِ باب ہونا چاہیے۔
؎میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے