اپنی سرزمین سے لگائو فطری جذبہ ہے۔انسان جہاں جنم لیتا ہے،اس مٹی کی خوشبوہمیشہ لبھاتی ہے اور اس کے قلب و روح کو معطر کرتی ہے ۔بعض اوقات ہجرت کرکے کسی اور دھرتی کا رُخ کرنا پڑتا ہے لیکن جذبہ حب الوطنی کم نہیں ہوتا۔ یمن سے لیبیا اور عراق سے افغانستان تک کئی تباہ حال ممالک جو بدترین حالات کا سامنا کررہے ہیں،وہاں خانہ جنگی ،طوائف الملوکی اورغذائی اجناس کی قلت جیسے مسائل نے پورا نظام درہم برہم کردیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے حکمرانوں پر تنقید تو کرتے ہیں مگر ملک اور قوم کو برا بھلا نہیں کہتے ۔سوڈان،برونڈی ،کانگو،صومالیہ اوریوگنڈاجیسے غریب ترین افریقی ممالک کے شہری خود ترحمی کا شکار نہیں لیکن وطن عزیز پاکستان میں انوکھا رجحان ہے ۔یہاں لوگ حکومت ہی نہیں اپنے ملک اور قوم کو برابھلا کہتے ہیں۔ہمارے دانشور فرماتے ہیں ،دنیا میں پاکستانیوں سے گھٹیا اور نیچ قوم کوئی نہیں ۔اس معاشرے کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے ۔ہمارے بعض رہنمائوں کا خیال ہے کہ انکی حکومت گرانے سے تو بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم گرادیا جاتا۔بتدریج ایک ایسی منفی سوچ پروان چڑھائی گئی ،نوجوانوں کے اذہان و قلوب میں ایسا زہر بھر دیا گیاکہ اب انہیں ہر مثبت اور اچھی خبربھی بری لگتی ہے۔بھارت کیخلاف جنگ کے دوران ایک طبقے کی طرف سے محض اس لئے پاکستان کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ انکے ناپسندیدہ لوگ حکومت میں ہیں۔تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود افواج پاکستان کو واضح برتری اور کامیابی حاصل ہوئی ،بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی و خجالت کا سامنا کرنا پڑا تو اس پر بطور پاکستانی فخر کرنے کے تاسف کا اظہار کیا گیا۔شکوک و شبہات کا اظہار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے یہ کامیابی بیانیے کے زور پر حاصل کی گئی ہو۔آپریشن بنیان مرصوص کی بدولت پاکستان کو پوری دنیا میںایک نئی پہچان ملی اور اب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جو دفاعی معاہدہ ہوا ہے یہ اسی کامیابی کا نتیجہ ہے ۔ماضی میں ہم کاسہ گدائی لیکر پوری دنیا میںگھومتے پھرتے تھے ۔سعودی عرب سے اُدھار تیل لینے کیلئے نجانے کتنی تگ ودو کرنا پڑتی تھی اور اب یہ صورتحال ہے کہ حرمین الشریفین سمیت پورے سعودی عرب کی حفاظت کی ذمہ داری ہمیں سونپ دی گئی ہے۔ ہمارے متحارب ممالک کےایوانوں پر لرزہ طاری ہے ۔عالمی تجزیہ کار بتارہے ہیںکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے جارہی ہے مگر وطن عزیز میں ایک ایسی نسل بھی ہے جسکے دل میں یہ خوشخبری کسی تیر کی مانند پیوست ہوئے جاتی ہے ۔وہ یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ یہ کوئی تاریخ ساز لمحہ نہیں بلکہ فریب کاری ہے ، پہلے بھی تو اسلامی ممالک کی فوج بنانے کا اعلان ہوا تھا ،سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس مسلم فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تھا مگر عملاً کچھ نہیں ہوا۔جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ ایک شخص کو ملازمت دینے اور ایک ملک سے دفاعی معاہدہ کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے تو وہ پہلو بدل کر کہتے ہیں اچھا اگر ایسی بات ہے تو اس طرف سب سے پہلے ہمارے مرشد نے پیش قدمی کی تھی ۔وہ پہلا شخص تھا جس نے اسلامی ممالک کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ۔جس نے روس کا دورہ کیا اور اسے امریکہ نے رجیم چینج آپریشن کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا۔اب ان لایعنی و بے معنی باتوں کا کیا جواب دیا جائے۔چلیں آپکی تسلی اور تشفی کیلئے ضروری ہے کہ اسکا کریڈٹ آپکے محبوب رہنما کو دیا جائے تو خیال و خواب کی دنیا میں جیتے رہیں مگر اچھی خبروں کا بائیکاٹ تو نہ کریں۔اپنے ملک کو برا بھلا نہ کہیں ،مایوسی نہ پھیلائیں۔
اکتاہٹ ،بیزاری ،مایوسی اور یہاں تک کہ ملک سے نفرت کا زہر اس حد تک گھول دیا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ یوم آزادی کے موقع پر جھنڈا لگانا تھا میں نے ایک جاننےوالے سے بات کی ،اس نے کہا،پی ٹی آئی کا جھنڈا لگوانا ہے تو مفت لگا دوں گا۔میں نے گزارش کی کہ چودہ اگست کی مناسبت سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم آویزاں کرنا ہے تو کہنے لگا ،کسی اور سے لگوالیں۔میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ویسے تو یہ ہرشخص کا استحقاق ہے کہ وہ کونسا جھنڈا لگوانا چاہتا ہے لیکن تمہیں کسی مخالف سیاسی جماعت کے جھنڈے سے خار ہوسکتی ہے مگر قومی پرچم تو سب کا سانجھا ہے ۔مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سیاسی بیانیے کی آڑ میں پاکستانیت کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وہ قومی علامتیں جو ہمارے اتحاد و یکجہتی اور یگانگت کا ذریعہ تھیں ،انہیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔میںیہ نہیں کہتا کہ یہاں مسائل نہیں ہیں ،یقیناً ریاستی ناکامیاں اس رویے اور مزاج کو فروغ دے رہی ہیں ،حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں ،عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں لیکن کس ملک میں مثالی نظام ہے ؟ہر جگہ انواع و اقسام کے مسائل موجود ہیں۔ وہاں لوگ پالیسیاں بنانیوالوں پر تنقید کرتے ہیں ،حکومتوں کیخلاف بات کرتے ہیں لیکن اپنے ملک اور قوم سے متعلق کسی قسم کی منفی بات گوارہ نہیں کرتے لیکن یہاں اپنے وطن کو گالی دینا فیشن بن گیا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہم شروع سے ملک وملت کے درمیان بٹ کر رہ گئے ہیں ۔ایک طبقہ روز اول سے ہی وطن پرستی کو غلط سمجھتا ہے اور علامہ اقبال کے اس فلسفے پر یقین رکھتا ہے کہ
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ،وہ مذہب کا کفن ہے
یہی وجہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگایا تو مجھ سمیت بیشمار لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔بطور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف سے بیشمار اختلافات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ نعرہ بالکل درست تھا پاکستان کو سب سے پہلے ہی ہونا چاہئے ،پاکستانیت کو ہر چیز پر مقدم ہونا چاہئے جب تک ہم اپنے ملک ،قوم اور وطن پر فخر محسوس نہیں کریں گے ،آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔