پہلے پہل کاف کو یوں لگا جیسے یہ اُس کا وہم ہو، لڑکی کی پُشت اُس کی طرف تھی سو وہ ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا مگر جب لڑکی نے دوبارہ قہقہہ لگایا تو وہ چونک اٹھا، یہ بے باک ہنسی صرف اُسی کی ہو سکتی تھی، ایک مخصوص انداز تھا جو صرف اُسی کی ملکیت تھا۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہاں ہو، اُس کے شہر میں! اسے تو یہ شہر چھوڑے کئی برس بیت چکے تھے۔ جانے سے پہلے آخری مرتبہ اُس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہزاروں میل کا سفر طے کرکے اُس سے ملنے آیا کریگی اور کاف کو اِس بات کا یقین بھی تھا، مگر پھر وہی ہوا جو ایسے قصوں میں ہوا کرتا ہے۔ شروع شروع میں دونوں روزانہ رابطہ کرتے تھے، رات گئے تک باتیں کرتے تھے اور ساتھ گھومنے پھرنے کے منصوبے بناتے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، تین ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور ملیںگے۔ تین ماہ گزر گئے مگر وہ نہیں مل پائے۔ ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آ جاتی اور یوں یہ بیل مَنڈھےنہ چڑھ سکی۔ مگر دونوں میں رابطہ بحال رہا، لڑکی اُسے اپنے پورے دن کی رُوداد سناتی، کہاں کہاں ملازمت کی درخواست دی، کون ملا، کیسے ملا، کیا بات ہوئی۔ ایک دن اسے نوکری بھی مل گئی، گو کہ اُسکی قابلیت سے میل نہیں کھاتی تھی مگر پردیس میں گزارا کرنے کیلئے مناسب تھی۔ اِس کے بعد دونوں میں رابطہ کم ہو گیا، دفتری اوقات میں تو بات کرنا ممکن نہیں تھا اور جب وہ گھر آتی تھی تو بے حد تھکی ہوتی، کچھ دیر وہ کاف سے بات کرتی اور پھر سو جاتی۔ دھیرے دھیرے اُنکی باتوں میں کچھ دنوں کا وقفہ آنے گا، یہ وقفہ بڑھ کر ایک ہفتے کا ہوا اور پھر بات مہینوں تک جا پہنچی، اور اُسکے بعد دونوں کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب اُنکا تعلق ختم ہو گیا۔ اُن کا آخری رابطہ چند برس پہلے ہوا تھا جب دونوں نے ایک دوسرے کو نئے سال کی آمد پر رسمی پیغامات بھیجے تھے۔ محبت کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے جس میں کچھ باتیں کہے بغیر ہی سمجھ لی جاتی ہیں۔ پیغامات کے اِس رسمی تبادلے کے بعد دونوں کے درمیان تعلق کا رہا سہا دھاگہ بھی ٹوٹ گیا۔ Between what is said and not meant, and what is meant and not said, most of love is lost۔ خلیل جبران کا یہ قول اسے تب سمجھ میں آیا تھا۔ آج جب کاف نے اُس لڑکی کا قہقہہ سنا تو اُس کے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی، یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ قہقہہ اُسکے علاوہ کسی اور کا ہو، کاف نے سوچا۔ لڑکی کا چہرہ اب بھی اسے نظر نہیں آ رہا تھا، کاف کی نظریں مگر اُس پر جمی رہیں، لڑکی کے ساتھی نے کاف کی طرف اشارہ کیا جیسے لڑکی کو کہہ رہا ہو کہ پیچھے مُڑ کر دیکھو، لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اسی لمحے وقت تھم گیا۔ کئی برس گزرنے کے باوجود اُسکی دلکشی کم نہیں ہوئی تھی بلکہ کاف کو یوں لگا جیسے وہ پہلے سے بھی زیادہ حسین ہو گئی ہو۔ اُس نے اپنے ساتھی سے کان میں کچھ کہا اور پھر اُٹھ کر کاف کے پاس آ گئی۔ نہ جانے کیوں دونوں بہت رسمی انداز میں ملے۔ برسوں کی دُوری شاید حجاب قائم کر دیتی ہے۔ ایک مرتبہ اُس نے کاف سے کہا تھا کہ اِس دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں صرف ایک شخص ہے جو میرا ہمدم ہے اور وہ تم ہو۔ اُس دن وہ بہت جذباتی تھی، اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے تمہاری عادت ہو گئی ہے، جب تم میرے ساتھ نہیں ہوگے تب میں کیا کرونگی، مجھے اِس عادت سے چھٹکارا پانا ہو گا۔ اِس کے بعد وہ دونوں بہت دیر تک خاموشی سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں تکتے رہے۔ لیکن پھر بالآخر اُس نے خود ہی وہ جملہ بول دیا اور کاف نے ہمیشہ کی طرح اُس پر یقین کر لیا۔ وہ لڑکی آج کئی برس کے بعد اُسے ملی تو پوری فلم اُس کے دماغ میں چل گئی۔ اُس نے بتایا کہ اب وہ کسی بین الاقوامی ادارے میں نوکری کر رہی ہے، تنخواہ معقول ہے اور اُسکی ملازمت کی نوعیت ایسی ہے کہ اکثر بیرون ملک سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہ سُن کر کاف کے دماغ میں وہ تمام وعدے وعید آ گئے جو انہوں نے آپس میں کیے تھے کہ وہ کیسے اکٹھے سفر کریں گے، دنیا دیکھیں گے اور ایک دوسرے سے دور رہنے کے باوجود بھی ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ لڑکی نے اپنے ساتھی کا تعارف بھی کروایا، وہ اُسکا کولیگ تھا جو اُس کے ساتھ ہی یہاں آیا تھا، لڑکی نے بتایا کہ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ اپنے شہر آ چکی ہے۔ کاف نے پوچھا کہ کیا کبھی تمہیں مجھ سے ملنے کا خیال نہیں آیا؟ جواب میں لڑکی کی آنکھیں ایک لمحے کیلئے نم ہوئیں مگر پھر فوراً ہی اُن میں وہی بچوں کی سی چمک واپس آ گئی اور اُس نے اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ تمہیں بھی تو خیال نہیں آیا۔ دونوں کچھ دیر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں وہ اکثر ملا کرتے تھے، لڑکی کو یہاں سے غروب آفتاب کا منظر دیکھنا بہت پسند تھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ لڑکی کا ساتھی بار بار اسے دیکھ رہا تھا، یہ بات لڑکی نے بھی نوٹ کر لی، اُس نے اشارے سے اپنے ساتھی کو انتظار کرنے کا کہا اور کاف کے ساتھ ہی بیٹھی رہی۔ ’’اب تمہیں میری عادت نہیں رہی؟‘‘ کاف نے یکدم سوال کیا۔ اِس مرتبہ لڑکی نے اپنا مخصوص قہقہہ نہیں لگایا اور خاموش رہی۔ چند لمحوں بعد اُس کے لب ہلے۔ ’’میں اِس سے شادی کر رہی ہوں۔‘‘ کاف کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور چلا گیا مگر وہ کچھ نہیں بولا۔ شاید اسے کچھ کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ دونوں پھر خاموش ہو گئے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ لڑکی نے اپنا بیگ اٹھایا، حسب عادت اپنی چیزیں تلاش کیں، ٹشو پیپر کو ڈسٹ بِن میں پھینکا اور مسکرا کر کھڑی ہو گئی۔ کاف کی آنکھوں میں نمی تھی۔ لڑکی نے شاید یہ بات محسوس کر لی تھی۔ ’’تم اب بھی اِس دنیا کی آٹھ ارب کی آبادی میں ایک ہی شخص ہو جس سے میں نے محبت کی ہے لیکن اگر اِس وقت میں نے تمہاری آنکھوں میں دیکھا تو میں پتھر کی ہو جاؤں گی اور یہ میں نہیں چاہتی۔‘‘ اتنا کہہ کر لڑکی نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا، اُس نے اپنا سلگتا ہوا سگریٹ پھینکا اور وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر وہاں سے چل دیے۔ کاف انہیں جاتا دیکھتا رہا۔ وہ پتھر کا ہو چکا تھا۔