• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے دور کا اعلان ہے۔ پاکستان میں وہ حلقے اس معاہدے کو مذہبی عینک سے دیکھتے ہوئے پنجوں کے بل اچھل رہے ہیں جنکی ذہنی پسماندگی نے ترقی پذیر پاکستان کو زوال ، غربت اور دست نگری کی موجودہ حالت کو پہنچایا ہے۔ یہ عناصر برسوں افغان جہادمیں امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کے غیر علانیہ تعاون میں دست و بازو کا کردار ادا کرتے رہے۔ نا م نہاد افغان مجاہدین کے نام پر تشہیری داستانوں کے دفتر سیاہ کرتے رہے۔ طالبان نمودار ہوئے تو ان کی آغوش میں پناہ لی۔ دنیا بھر میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کے ترانے گاتے رہے ۔ ان میں سے کچھ کرداروں کو افغانستان پر قابض مبینہ طالبان نے پاکستانی ریاست سے مفروضہ مذاکرات میں اپنا نمائندہ تک نامزد کیا۔ یہ لوگ بیس برس تک افغانستان میں امریکی موجودگی کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر منقار زیرِ پر رہے۔ مذہبی دہشت گردی کے درجنوں کردار پاکستان سے گرفتار ہوئے لیکن یہ ’ظاہردار بیگ‘ ریاستی بیانیے کی بند گلی میں مورچے جمائے ایران توران کی ہانکتے رہے۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت پر انہوں نے کبھی زبان نہیں کھولی ۔ افغانستان سے سوویت یونین اور امریکا کے انخلا پر بغلیں بجاتے رہے۔ انہیں آج کے زمینی حقائق سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ 1648 ء میں ویسٹ فیلیا کے معاہدے سے جنم لینے والی دنیا سے بے خبر ہیں۔ سلطنت عثمانیہ سے الگ ہونے والی ریاستوں کی سیاسی اور معاشی شناخت سے انہیں کبھی تعلق نہیں رہا۔ پاکستان میں انکا کردار غیر جمہوری قوتوں سے درپردہ گٹھ جوڑ کی مدد سے معاشرت کو مفلوج کرنا ہے۔ ان بزر جمہروں نے پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی نقشے کو دھندلانے میں مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ کل یہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے مخالف تھے اور آج نوجوان بچیوں کو سروائیکل کینسر کی ویکسی نیشن کیخلاف سر گرم ہیں۔ دراصل انہیں ریاست کی ہر ایسی سرگرمی سے مخاصمت ہے جس میں اندیشہ ہو کہ ملک میں جگہ جگہ چھپے ہوئے اندرونی اور بیرونی دشمن عناصر کی نشان دہی ہو سکتی ہے۔ ان کے بیانیے کی سیاسی طاقت مفقود ہے لیکن یہ ذرائع ابلاغ اور درس گاہوں میں اپنی اجارہ داری کے بل پر رائے عامہ کو گمراہ کرتے ہیں۔ زمینی حقائق سے کٹے ہوئے یہ عناصر ہر چند برس بعد ایک نئے مسیحا کے جلوس ِشاہی میں تاشے بجاتے ہوئے نکلتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا ’ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں‘۔پاک سعودی دفاعی تعاون کا معاہدہ امکانات کی ایک دنیا لیے ہوئے ہے۔ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ازسرنو مرتب ہو گا۔ سرد جنگ کے بعد دنیا بھر میں واحد عالمی طاقت کے طور پر امریکا کا کردار تبدیل ہو گا۔ ان امکانات کو سمجھنے کیلئے کچھ قابل تصدیق شواہد جاننا ضروری ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب میں 1450کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اسلام آباد سے اسرائیل تقریباً 4700کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سعودی عرب کا موجودہ دفاعی بجٹ 88ارب ڈالر اور پاکستان کادفاعی بجٹ 9ارب ڈالر ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کا دفاعی بجٹ 47 ارب ڈالر ہے لیکن فوجی طاقت کے اعتبار سے اسرائیل دنیا میں پندرہویں ، پاکستان بارہویںاور سعودی عرب چوبیسویں نمبر پر ہے۔ ان اعداد و شمار میں باہم تناسب کا فرق ایک نکتے کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان نیو کلیائی طاقت ہونے کے علاوہ دفاعی صلاحیت میں عرب ممالک سے بہت آگے ہے۔ ایک قابل غور زاویہ یہ بھی ہے کہ سعودی اسلحہ بنیادی طور پر امریکی ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پاکستان کی دفاعی قوت کا تقریباً 80 فیصد چین سے برآمد کیا جاتا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر حالیہ معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں امریکی اثرونفوذ میں کمی واقع ہو گی۔ رواں برس مئی میں بھارت سے تصادم کے بعد پاکستان کی سفارتی اہمیت واضح طور پر بڑھی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی تعاون سات عشروں پر محیط ہے ۔ متعدد مواقع پر امریکی امداد ختم ہونے کے بعد سعودی تعاون کے بغیر پاکستانی معیشت کا جانبر ہونا قریب قریب ناممکن تھا۔ اگرچہ سعودی عرب اور ایران میں مخاصمت کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتر ی میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 2015 ء میں سعودی عرب نے ایران کے حلیف یمنی عناصر کے خلاف پاکستان سے دفاعی مدد مانگی تو پاکستان نے ایران سے متصل سرحدی نزاکتوں کے پیش نظر صاف انکار کر دیا تھا۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ سعودی عرب سے معاہدے نے پاکستان کی عالمی تنہائی کا تاثر ہی زائل نہیں کیا بلکہ پاکستان کے داخلی سیاسی بندوبست کو بھی سہارا ملا ہے۔ پاکستان کے لیے دفاعی اور اقتصادی امکانات کے دروازے کھلے ہیں۔ اس معاہدے سے پاکستان میں توانائی کے بحران میں بھی مدد ملے گی۔ بایں ہمہ سعود ی عرب اور بھارت میں ’تزویراتی شراکت‘ کے معاہدے کے باوجود سعودی ریاست توقع رکھتی ہے کہ بھارت اور ایران کو اس معاہدے پر تشویش نہیں ہو گی۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر اسرائیل کے عزائم کیلئے ایک دھچکے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب اسرائیل مشرق وسطیٰ کو من مانے طور پر مرتب کرنے سے پہلے دو بار سوچے گا ۔ مشرق وسطیٰ کے منظرنامے میں پاکستان کی آمد سے اسرائیل کی دفاعی اور نیوکلیائی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے۔ پاک سعودی معاہدہ صرف دو ملکوںمیں تعاون کا منصوبہ نہیں بلکہ اس سے اردن ، لبنان اور شام جیسے ممالک کی دفاعی اہمیت بھی تبدیل ہو گی۔ یہ معاہدہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن دو نکات مدنظر رکھنے چاہئیں۔ اس معاہدے سے پاکستان کے داخلی سیاسی بحران کو بہت کم مدد مل سکے گی۔دوسرا یہ کہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر دفاعی تعاون سے پاکستان ایک نئی سفارتی دنیا میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ زمینی حقائق کی سیاست ہے۔ اسے مذہبی اور نظریاتی سرنگ کے محدود زاویے سے دیکھنے والوں کے خواب کل بھی بے ثمر رہے تھے اور آئندہ بھی انکی خواہشات بانجھ رہیں گی۔

تازہ ترین