تادم تحریر واشنگٹن میں قیام پذیر ہوں اور بس کچھ ہی لمحوں بعد نیو یارک کی جانب روانہ ہو جاؤنگا ۔ پہلے تو ارادہ یہ بنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس پر امریکیوں کی آنکھ کے مشاہدات پیش کروں مگر اس کو نیو یارک میں گفتگو کے مختلف مراحل کے مکمل ہونے تک التوا میں ڈال دیا ہے کہ ذرا نیو یارک واسیوں سے بھی بات ہوجائے تو اس پر مفصل کلام کرینگے ۔ یہاں امریکی حکومت سے وابستہ افراد ، قانون سازوں ، کونسل آن فارن ریلیشنز، بروکنگز انسٹیٹیوٹ ، مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ ہیریٹیج فاؤنڈیشن، اٹلانٹک کونسل کے پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور نئے دوست بنے ، گفتگو میں ہر وہ پہلو سامنے آیا جو اس وقت پاکستان اور اس سے متعلقہ دنیا میں ہو رہا ہے ۔ پاکستان کیلئےاس وقت سب سے بڑا درد سر بلاشبہ دہشت گردی ہے اور اس میں شک کی گنجائش رتی برابر بھی نہیں کہ یہ سب افغان سر زمین سے ہو رہا ہے ۔ امریکیوں کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے اور وہ آج بھی کسی نہ کسی حد تک اس پر کبیدہ خاطر ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے وقت دوہرا رویہ اختیار کیا اور افغان طالبان کی در پردہ مدد کرتا رہا۔اگر اس وقت پاکستان بغیر کسی دوسری اسکیم کے صرف یکسوئی سے امریکہ کا ساتھ دے دیتا جس کا وہ اظہار بھی کر رہا تھا تو آج پاکستان کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہوتا کہ جس صورتحال سے وہ روز نبرد آزما ہے، آپ تو اس حد تک کھل کر سامنے آئے اور خود یہ واضح کیا کہ آپ جو کہہ رہے تھے وہ کر نہیں رہے تھے ۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے افغان طالبان کے کابل میں داخلے پر زنجیریں ٹوٹنے کا کہا اور جنرل فیض فوراً’’فتح‘‘ کا کریڈٹ لینے چائے کی پیالی پینے چلے گئے ، آخر اتنی جلدی کس بات کی تھی ؟ ۔پاکستان کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ افغان طالبان کے پاس سفارت کاری کی دنیا میں بس ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ اسکی حمایت یافتہ مسلح تنظیمیں ہیں ۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے وہ انکو استعمال کرتے رہیں گے اور پاکستان کو یہ خیال بھی ذہن سے محو کر دینا چاہئے کہ وہ پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کو پرِکاہ کے جتنی اہمیت دیتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنے سے جدا کردیں گے کارروائی تو بہت دور کی بات ہے ۔ آپ چین کو بھی شامل کرکے دیکھ لیں، افغان طالبان آپ کی اور چین کی اس پریشانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور اسلئے وہ اس کو ترک نہیں کرینگے ۔مگر امریکی ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو ہوا سو ہوا اب ہم پاکستان کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تا کہ باہمی تعلقات بہتر ہو سکیں ۔ امریکیوں کی شکایات کے جواب میں ایک ہی بات کی کہ جنرل ضیاء کے دور میں تو پاکستان کے کردار پر آپ کو کوئی شبہ نہیں تھا مگر ابھی سوویت یونین افغانستان سے مکمل نکلا نہیں تھا کہ آپ نے آنکھیں پھیر لی تھیں ، پریسلر ترمیم کا ’’ تحفہ‘‘دیا تھا اور یہ صرف میری یا پاکستان کی رائے نہیں بلکہ ہالی ووڈ نے افغان جنگ پر چارلی ولسنز وار کے نام سے مشہور فلم بنائی اس کا ذرا آخری سین دیکھ لیجئے جو میں کہہ رہا ہوں وہ ہی آپ کو نظر آجائے گا ۔ ایسے ماضی کے ساتھ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلق پر خوف تھا بلا شبہ پاکستان کیلئے افغانستان ایک درد سر بن گیا ہے مگر تمام الزام پاکستان پر دھر دینا درست نہیں اور اب بھی پاکستان اور امریکہ کو دہشت گردی پر مشترکہ طور پر آگے بڑھنا چاہئے مگر صدر ٹرمپ تو افغانستان میں بگرام ایئر بیس لینے کی بات کر رہے ہیں کہ یہ ایئر بیس چین کے جوہری ہتھیاروں کے پاس ہے ایسی صورت میں تو تصادم کی جانب آپ بڑھ رہے ہیں جو کسی طور بھی مناسب نہیں ہے مگر امریکہ میں یہ خیال ہے کہ چین کے ساتھ کسی تصادم کا سوچنا بھی عقل کے خلاف ہوگا اور اس وجہ سے ہی وہ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات کو منفی نظر سے دیکھنے کی بجائے اس میں سے مثبت پہلوؤں کو تلاش کیا جائے ۔ امریکہ کی بس یہ خواہش ہے کہ پاکستان چین اور امریکہ سے اپنے تعلقات میں ایک توازن کو قائم کرے اور یہ نہ محسوس ہو کہ پاکستان صرف ایک طرف ہی جھکتا چلا جا رہا ہے اور پاکستان کے پاس یہ کر گزرنے کی صلاحیت بھی ہے ۔ پاکستان جس معاشی گرداب میں بری طرح سے پھنس چکا تھا اس سے نکلنے کے حکومتی اقدامات کو امریکہ میں تسلیم کیا جا رہا ہے اور اس بات کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے اس کی اجازت دی کہ سیاسی اثاثہ چاہے داؤ پر لگ جائے مگر شہباز شریف معاشی استحکام کو حاصل کریں اور اس کے نتیجے میں معاشی استحکام کی جانب پاکستان رواں دواں ہو گیا ہے ۔ اور اس طرح ہی خارجہ محاذ پر اسحاق ڈار اور ان کے ساتھ ساتھ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تگ و دو رنگ لا رہی ہے اگر پاکستان میں سیاسی فضا یہی قائم رہی تو پاکستان بہت جلد معاشی گرداب سے مکمل طور پر باہر نکل جائے گا ۔