رات کو سوئے تو’’مسکین‘‘تھے، صبح اٹھے تو ’’محافظ‘‘ قرار پائے۔ کئی ملکوں سے دوستوں کے فون آئے کہ ہم آج شاہراہوں پر سینہ چوڑا کر کے محوِ خرام ہیں۔ ہم نے کئی روحانی بزرگوں اور ستارہ شناسوں کو کہتے سنا تھا کہ پاکستان سربلند ہونے والا ہے، ہم نے ہمیشہ ان کی باتوں کو خلافِ عقل سمجھا۔ معذرت، وہ صحیح تھے اور ہم غلط۔ہماری شعری روایت میں مولانا رومؒ کو سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے جسے ہر جمہوری آئین کا اساسی اصول قرار دیا جا سکتا ہے، فرماتے ہیں:انجیر فروش را چہ بہترانجیر فروشی اے برادریعنی، مولانا سے سوال ہوتا ہے کہ انجیر بیچنے والے کو کیا کرنا چاہیے، اس کا زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے، اس کے حق میں کیا بہتر ہے، مولانا اپنے پُر از حکمت جواب میں فرماتے ہیں انجیر فروش کے لیے بہترین مشورہ یہ ہے کہ وہ انجیریں بیچے، مکمل اِنہماک سے، کامل اِرتکاز سے۔آئین کی بنیاد بھی اسی اصول پر اٹھائی جاتی ہے، خانے بنا دیے جاتے ہیں، کام تفویض کر دیے جاتے ہیں، متعلقہ اختیار دے دیا جاتا ہے۔ ہم نے زندگی بھر اس اصول کی حکمت کو تسلیم کیا ہے، دنیا بھر میں اس کے کامیاب اطلاق کی مثال دی ہے، اس عقیدے کی تبلیغ کی ہے۔ یہ فقرہ آپ نے اکثر سنا ہو گا ’’ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے‘‘۔ اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کہنے والے کیا کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں، دراصل طاقت ور اداروں کا نام لیے بغیر کہا یہ جا رہا ہوتا ہے کہ پارلے مان اور سویلین اداروں میں مداخلت بند کی جائے۔ ہم ہمیشہ سے اسی نظریے کے قائل تھے اور آج بھی ہیں۔ بہرحال،ایک اقرار ضروری ہے۔ہم بھی ان لوگوں کے ہم خیال رہے ہیں جو سمجھتےتھے کہ ہمارے عساکر طرح طرح کے کام کرتے ہیں مگر اپنا کام یکسوئی سے نہیں کرتے۔ ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ہمارے اس عقیدے کا کم از کم ایک حصہ باطل ٹھہرا ہے۔ افواج پاکستان نے اپنا کام کیا، بلا شبہ کیا اور عالی شان کیا۔ جو کام ان کے ذمے قوم نے اور آئین پاکستان نے لگایا تھا انہوں نے مثالی طور پر سرانجام دیا۔ اپنے تفویض شدہ کام پر عمل کرنے کی برکت دیکھیے، ہر طرف سے داد کے ڈونگرے برس رہے ہیں، چہار دانگ تکریم کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ بھلا ہو نریندر مودی کا، جس نے انجانے میں آپریشن سیندور سے اس انقلاب کی بِنا رکھی۔ تفصیل ابھی عرض کرتا ہوں۔قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم ایک نئی دنیا طلوع ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جس دنیا کے ہم عادی تھے وہ زیر و زبر ہو رہی ہے۔ مغرب کی طویل فوقیت گریزپاہے۔ پچھلی پانچ صدیاںمغرب کی برتری کا زمانہ سمجھا جاتا ہے، اور اگر صنعتی انقلاب سے بھی ناپا جائے تو مغرب کی دو سو سالہ معاشی، علمی و سائنسی اور فوجی سبقت مسلمہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب نے ایک ورلڈ آرڈر ترتیب دیا تھا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے یو این او اور نیٹو تک درجنوں ادارے اس ورلڈ آرڈر کی نگہبانی کرنے کیلئے تخلیق کیے گئے۔ یہ ادارے زوال آمادہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم ایک بائی پولر دنیا میں رہے، اور سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے ہم ایک یونی پولر دنیا میں رہتے رہے، اور اب دنیا تیزی سے ملٹی پولر ہوتی جا رہی ہے۔ جن عناصر سے نئی دنیا تخلیق پا رہی ہے، مشرق ان میں برتری حاصل کر رہا ہے، سیمی کنڈکٹرز سے نایاب دھاتوں تک، مشرق کا غلبہ واضح دکھائی دیتا ہے، معاشی طور پر چین کل یورپی یونین سے بڑی معیشت بن چکا ہے، بھارت برطانیہ سے آگے نکل چکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے سکیورٹی کا جو نظام یورپ سے مشرقِ وسطیٰ تک ترتیب دیا تھا اس میں بھی شگاف پڑ رہے ہیں۔ یورپ نئے سکیورٹی بندوبست کی تلاش میں ہے، اور مشرق وسطیٰ کو بھی کچھ ایسی ہی صورت درپیش ہے۔ عربوں نے اپنی سکیورٹی کا جو انتظام کیا تھا اس میں ایک درجن سے زیادہ امریکی فوجی اڈے، تیس ہزار امریکی فوجی، اور اربوں ڈالر کی تجارت شامل تھے۔ عرب محسوس کر رہے ہیں کہ یہ انتظام ناکام ہو گیا ہے۔بہت عرصے سے سنتے تھے کہ چین دفاعی طور پر امریکا کے تعاقب میں ہے، مگر ابھی دہائیوں کا فرق ہے۔ لیکن یہ دہائیاں سمٹتی نظر آ رہی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جنگی ہتھیاروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال میں چین جس اہلیت کا مظاہرہ کر چکا ہے، مغرب کو ابھی کرنا ہے۔یونی پولر ورلڈ کے ڈرامے کا آخری سین چل رہا ہے۔ تاریخ کا یہ ورق الٹنے کو ہے۔ ہمارا یونی پولر ورلڈ کا تجربہ بہت برا رہا جس میں ایک سپر پاور کی رعونت غیر ضروری جنگ و جدل کا باعث بنی۔ کیا ملٹی پولر ورلڈ امن کا پیغام لائے گی؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ملٹی پولر دنیا میں انتشار کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم ملٹی پولر ورلڈ میں وقوع پذیر ہوئی تھیں۔ اس میں علاقائی طاقتوں کا اپنے خطے میں چودھراہٹ کا شوق فزوں تر ہو جاتا ہے۔ آپریشن سیندور اور ایران و قطر میں اسرائیلی کارروائیاں اسی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا کے سٹیج کا نیا ہیرو چین مزاجاً ان سپر پاورز سے مختلف ہے جو ہم نے حال ہی میںدیکھی ہیں۔ یاد رہے کہ چین کا نہ تو دنیا میں کوئی فوجی اڈہ ہے، نہ کسی ملک پر بمباری کا شوق ہے، نہ حکومتیں الٹنے کا۔یہ ہے وہ پس منظر جس میں بھارت نے آپریشن سیندور کیا، منہ کی کھائی، اور ہر ناظر پر پاکستان کی فوجی قوت کی دھاک بٹھا دی۔ اس جنگ نے چین کی عظیم فوجی طاقت کا پردہ بھی ہلکا سا سرکا دیا۔ پاک سعودی معاہدہ قطر پر اسرائیلی میزائیل حملے اور آپریشن سیندور کا ثمر ہے۔ اب پاکستان پر حملہ حرمین پر حملہ تصور ہو گا۔ اللہ اکبر! ایک دفعہ پھر عساکر کو سلام۔ لمحہء موجود کی عزت کو دوام دینے کا ایک ہی طریقہ ہے....اس کامیابی کے اثرات ان 25کروڑ’’مسکینوں‘‘تک پہنچائے جائیں جنہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اسے ممکن بنایا ہے۔ پاکستان زندہ باد!