آج موضوعات کی اس قدر بھرمار ہے کہ سمجھ نہیں آرہی کس پر قلم اٹھایا جائے اور کسے نظرانداز کیاجائے۔ ارادہ تو پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے ثمرات پر بحث کرنے اور انکا تنقیدی جائزہ لینے کا تھا بالخصوص اس لیے کہ بہت سے سوالات و حقائق ہیں جن پر نہ کسی کا دھیان جارہا ہے اور نہ انہیں کوئی زیرِبحث لارہا ہے۔ بلاشبہ سعودی عرب سے ہم سب بھرپور محبت رکھتے ہیں حجازِ مقدس، بلدالامین ہو یا اسرائیلی و کنعانی ارض مقدس یروشلم ہو انکی محبتیں ناچیز کے خون میں موجزن ہیں اور پھر سعودیہ کے موجودہ حکمران کراؤن پرنس عزت مآب محمد بن سلمان تو ایک کرشماتی شخصیت ہیں جو اپنے ملک کی قدامت پسندی کو جدت و ترقی میں بدلنے کیلئےانقلابی اقدامات کررہے ہیں یہ درویش روزِ اول سے ان کی ہمنوائی و پیش بندی میں پیہم آواز اٹھاتا چلا آرہا ہے۔ سعودیہ عریبیہ اور پاکستان کے درمیان طے پانے والی دفاعی ڈیل یا معاہدے پر بحث کسی الگ آرٹیکل کی متقاضی ہے۔ آج کا موضوع یو این جنرل اسمبلی میں ہونیوالی رنگارنگی عالمی بحثوں بالخصوص انوکھے امریکی پریذیڈنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے پریشان کن یا حیران کن خطاب کا جائزہ ہے اور یہ بھی کہ کیا واقعی کوئی فلسطینی ریاست خطۂ کنعان میں بننے جارہی ہے۔ جس طرح یہ شور ہے کہ انگلینڈ، فرانس اورجرمنی جیسے طاقتور یورپی ممالک ہی نہیں کینیڈا ،آسٹریلیا اور پرتگال جیسے ممالک بھی فلسطینی ریاست قائم کرنے کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو خطۂ کنعان میں الگ فلسطینی ریاست کے قیام کا دنیا میں مخالف کوئی بھی نہیں، امریکا و اسرائیل بھی نہیں کیونکہ یہ امریکا ہی تھا جس نے اس حوالے سے اسرائیل کو قائل کرتے ہوئے پی ایل او سے مذاکرات ہی نہیں باضابطہ معاہدے بھی کروائے تھے۔یاسرعرفات اور محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام درحقیقت الگ فلسطینی ریاست کی طرف ٹھوس عملی پیش رفت تھی، شرط محض یہ تھی کہ آپ لوگ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی سلامتی پر حملہ آور نہیں ہونگے۔ یہ اسی مذاکراتی پراسس کا ثمر تھا جس نے 2005ء میں اسرائیلی پرائم منسٹر شیرون کو مجبور کیا، امریکا نے چالیس برس سے قائم اس کا قبضہ ختم کرواتے ہوئے اسے فلسطینی اتھارٹی کو سونپ دیا تھا اور لاکھوں یہود روتے ہوئے اپنی قلعہ نما رہائش گاہیں چھوڑ کر نکل گئے تھے، یہ امر بھی واضح رہے کہ 1967ء سے قبل بھی یہ خطہ کسی فلسطینی اتھارٹی کے پاس نہیں تھا بلکہ جمہوریہ مصر کی راجدھانی کا حصہ تھا۔ہمارے ہاں تاثر یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ نے مسلمانوں کے خلاف کوئی نفرت بھرا ایکا کررکھا ہے اور وہ سب اکٹھے ہوکر بیچارے فلسطینی مسلمانوں کو مروارہے ہیں اور انکی الگ فلسطینی ریاست بننے نہیں دے رہے۔ واضح ہوناچاہیے کہ اصولی و عملی طور پر الگ فلسطینی ریاست کا قیا م1948ء میںکردیا گیا تھا۔ اور یہ سب اسی برطانیہ نے کیا جس نے ہندوستان کو تقسیم کیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا لیکن وہ کیا عوامل تھے جنکے کارن تب خود عربوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئےاسرائیل پر یلغار کردی تھی؟؟تفصیل میں جائیں گے تو اقوامِ متحدہ میں ہونے والی تقاریر بالخصوص پریذیڈنٹ ٹرمپ کے لایعنی خطاب کا محاکمہ نہیں کرسکیں گے جو یواین میں کھڑے ہوکر اپنے مخالفین ہی کو نہیں پوری دنیا کو دھمکا رہے تھے اور حد ہے کہ ان کا اپناٹیلی پرامپٹر تو خراب ہوا یا جو بھی کہانی تھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنیوالے دیگر عالمی لیڈران کی تقاریر پر مائیک بند کیاجاتا رہا؟ امریکا توآزادئ اظہار کا سب سے بڑا پرچارک ہے تو پھر مخالفانہ آوازوں پر یہ سلوک کرتے ہوئے آپ اقوامِ عالم کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟؟ کیا امریکی پریذیڈنٹ اتنا چھوٹا پن بھی دکھاسکتا ہے کہ یو این جنرل اسمبلی میں کھڑا ہو کر لندن کے منتخب میئر پر چڑھائی کردےکہ ’’صادق خاں لندن جیسے خوبصورت تہذیبی شہر کو برباد کررہے ہیں وہ لندن میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اسے امیگرینٹس کے کنٹرول میں دے چکے ہیں اور میں آئندہ وہاں نہیں جاؤں گا‘‘۔ ٹرمپ کہہ رہے تھے کہ یورپی ممالک غیر قانونی تارکین وطن کیلئے سرحدیں کھول کر اپنے ممالک کو جہنم بنارہے ہیں۔ یونان، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور دیگر یورپی ممالک کی جیلوں میں جرائم پیشہ غیر قانونی امیگریشن سے پہنچے ہوئے قیدی ہیں۔ یو این کا ادارہ غیر قانونی تارکین وطن کا سرپرست بن چکا ہے یہ مہاجرین کو بسانے کے نام پر مغربی ممالک پر ان لوگوں کی یلغار کروارہا ہے جبکہ اس ادارے کا اصل مقصد دنیا میں امن کا قیام تھا۔