اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر شرح سود میں کمی نہ کرنے کے فیصلے نے بزنس کمیونٹی کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ اس حوالے سے 15ستمبر کو ہونے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرح سود کو اگلے دو ماہ کیلئے 11فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ بزنس کمیونٹی کی طرف سے شرح سود میں کمی کے مطالبے کے باوجود مئی 2025ءسے شرح سود میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان کی شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو عالمی منڈی میں حریف ممالک سے مسابقت میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے سے صنعتی و کاروباری حلقوں کی وہ توقعات پوری نہیں ہوئیں جو معاشی جمود کے خاتمے کیلئے ضروری تھیں۔
واضح رہے کہ معاشی ماہرین بھی گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان میں شرح سود میں کمی پر زور دے رہے تھے اور اس حوالے سے یہ تجویز بھی پیش کی جاتی رہی ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح اور معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی کو فروغ دینے کیلئے شرح سود کو کم کرکے چھ سے سات فیصد کرنا ضروری ہے۔ اس سے ناصرف ایکسپورٹ انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت اور پیداواری قیمت میں اضافے جیسے مسائل سے نجات مل سکتی ہے بلکہ حکومت کو بھی قرضوں کے بوجھ میں تقریباً35سو ارب روپے کی نمایاں کمی کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں شرح سود میں کمی صنعتی پیداوار کو بڑھانے، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور شہریوں کی قوت خرید بڑھانے کے لئے بھی ضروری ہے۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب خود بھی شرح سود میں کمی کے حامی رہے ہیں اور وہ متعدد مرتبہ شرح سود میں کمی کے حوالے سے یقین دہانی کروا چکے ہیں۔ اس کے باوجودا سٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ مایوس کن ہے۔ اس سے کاروباری برادری کی توقعات کو دھچکا لگا ہے اور نئی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جس سے حکومت کی معاشی بحالی اور برآمدات بڑھانے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
واضح رہے کہ مانیٹری کمیٹی کے اجلاس سے قبل کاروباری حلقوں کی طرف سے افراط زر میں نمایاں کمی کے پیش نظر شرح سود میں بھی نمایاں کمی کی توقع کی جا رہی تھی۔ حکومت کے اپنی تخمینوں کے مطابق افراط زر کی شرح تین سے چار فیصد کے درمیان ہے۔ اس کے باوجود قرض لینے کی لاگت اور اصل افراط زر کی شرح کے درمیان ایک بڑا فرق موجود ہے جس کی وجہ سے کاروباری طبقے کو غیر ضروری مالی بوجھ کا سامنا ہے حالانکہ کاروباری طبقہ پہلے ہی پیداواری لاگت میں اضافے اور بجلی و گیس کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔
حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مہنگے قرضوں کے باعث پیداواری لاگت بڑھنے سے عالمی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مسابقت کم ہونے کی وجہ سے برآمد کنندگان کو برآمدی آرڈرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لئے شرح سود کو جلد از جلد کم کرکے چھ سے سات فیصد پر لانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر برآمدات میں اضافے اور معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی طرف سے بھارت اور خطے کے دیگر ممالک پر پاکستان کی نسبت ٹیرف کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے پاس برآمدات بڑھانے کا سنہری موقع موجود ہے۔ تاہم اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقتی قیمتوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی، شرح سود میں کمی اور ریفنڈز کی 72 گھنٹے کے مقرر وقت میں ادائیگی ضروری ہے۔ ان اقدامات سے جہاں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی وہیں انہیں درپیش سرمائے کی قلت کا بھی خاتمہ کیا جا سکے گا۔ علاوہ ازیں انڈسٹری اس سرمائے سے اپنی پیداواری استعداد میں اضافے کے لئے نئی اور جدید مشینری بھی درآمد کر سکے گی۔ اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں اس کے پاس برآمدات بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنے کا سنہری موقع موجود ہے لیکن اس کے لئے اسے حکومت سے وہ سپورٹ اور تعاون درکار ہے جس کا وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے تسلسل کے ساتھ اعلان کیا جاتا رہا ہے۔
اس لئے ارباب اقتدار کوا سٹیٹ بینک کے گورنر سے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں حکومت کے معاشی ویژن کے مطابق صنعتی ترقی کو فروغ دینے اور طویل مدتی معاشی استحکام کے لئے کاروبار دوست فیصلے کرنے کی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے۔ا سٹیٹ بینک کی طرف سے موجودہ حالات میں شرح سود کو برقرار رکھنے کی واحد وجہ قیمتوں میں استحکام کی کوشش نظر آتی ہے لیکن اس حوالے سے یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلند شرح سود کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں مسلسل دبائو کا شکار ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ حالیہ سیلاب نے برآمدی صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل کے لئے سپلائی چین کے مسائل میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی قرضے لینے کی صلاحیت بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے ان کی صنعتی پیداوار میں اضافے، اختراعات اور نئی ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے جہاں ملک میں معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں وہیں صنعتی حلقوں میں بھی شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر افراط زر اور مہنگائی میں کمی کی وجہ سے مالیاتی نظم و نسق میں بہتری آئی ہے تو اس سرمائے کو انڈسٹری کی بحالی کے لئے گردش میں لایا جائے۔