• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنسد ان، دانشور اور فلسفی پیدا کیوں نہیں ہو رہے؟

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا بنیادی مسئلہ ہے جسکی جَڑ تک ہم نہیں پہنچ پا رہے۔ ہمیں مسائل کا ادراک بھی ہے، اُن مسائل کو حل کرنےکیلئے بزرجمہر بیٹھتے ہیں، عالی دماغ لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، یہ سب لوگ سقراط کی طرح بحث کرکے حل پیش کرتے ہیں، کسی حد تک اُس پر عمل بھی ہوتا ہے مگر مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ آخر کیوں؟ اِس کیوں کا جواب نہیں مل سکا۔ ہم نے ون یونٹ بنایا، مسئلہ حل نہیں ہوا، صوبے بنا دیے تو کہا گیا کہ اُن کے پاس اختیار نہیں ہے، صوبوں کو اختیار دیا گیا تو وفاق کنگال ہو گیا، اب کہا جا رہا ہے کہ تینتیس صوبے بنا دو ’کمپٹیشن‘ ہوگا، گویا ملک نہ ہوا اکھاڑا ہو گیا۔ اگلی مثال تعلیم کی سن لیں۔ ملک میں ہائر ایجوکیشن کمیشن بنایا گیا، مقصد یہ تھا کہ نوجوانوں کو وظیفہ دے کر دنیا کی بہترین جامعات میں بھیجا جائے، وہاں سے وہ پی ایچ ڈی کرکے آئیں اور واپس آ کر اپنے ملک میں نوکری کریں، اُنہیں بہترین تنخواہ دی جائے گی۔ خیال بہترین تھا مگر کیا اِس کا وہ نتیجہ نکلا جو ہم چاہتے تھے؟ ظاہر ہےکہ نہیں، کیونکہ اگر مطلوبہ نتائج نکلتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا جو آج ہے۔ جب بھی میں اِس قسم کے مخمصے کا شکار ہوتا ہوں تو خود سے سوال کرتا ہوں کہ آئیڈیل کیا ہونا چاہیے، اُس آئیڈیل کو پانے کیلئے کیا کرنا چاہیے اور راہ میں حائل رکاوٹوں کو کیسے عبور کرنا چاہیے۔ اگر اِن تین سوالات کے جوابات تلاش کر لیے جائیں تو آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے، باقی صرف عملی کام رہ جاتا ہے۔ لیکن وہ انگریزی میں کہتے ہیں ناں easier said than doneتو یہ وہی بات ہے۔

آج صرف تعلیم کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں اِس وقت ایسی جامعات ہیں جن کا انفراسٹرکچر کسی بھی بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی سے کم نہیں، آپ اُن جامعات میں گھومیں تو یوں لگتا ہے جیسے اسٹین فورڈ یا ہاورڈ میں گھوم رہے ہوں، لیکن یہ مماثلت بس یہیں تک ہے، کیونکہ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں یہ ’سرکلر‘ جاری نہیں کیا جاتا کہ خواتین طالبات کا پہناوا کیا ہوگا یا رات کے فلاں وقت سے ’کرفیو‘ لاگو ہوگا جسکے بعد کسی طالبعلم کو یونیورسٹی سے باہر آنے جانے کی اجازت نہیں ہوگی، گویا وہ یونیورسٹی جو اپنی خوبصورتی کی بدولت جنت کا سماں پیدا کر رہی ہوتی ہے، کرفیو کے بعد جہنم کا احساس دلاتی ہے جہاں بات کرنا جُرم اور آزادی سے گھومنا بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کی کسی ٹاپ یونیورسٹی میں طلبا کیلئے یہ لازم نہیں کہ وہ ایم فِل یا پی ایچ ڈی کرتے ہوئے بھگوت گیتا، بائبل یا قرآن کا کورس بھی پڑھیں، یہ کام صرف پاکستان کی جامعات میں ہو رہا ہے کہ چاہے آپ بائیو کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ ہی کیوں نہ کر رہے ہوں ساتھ میں فہم القرآن کا کورس کرنا لازمی ہے، یہ ایچ ای سی کی نئی پالیسی ہے جو سوائے پاکستان کے کسی اسلامی ملک میں نافذ نہیں۔ دنیا کی بہترین جامعات میں مباحثے ہوتے ہیں جن میں طلبا ہر قسم کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، عموماً طلبا تنظیمیں یہ مباحثے کرواتی ہیں، اپنے ہاں ایسے مباحثے کروانا تو دور کی بات طلبا تنظیموں پر ہی پابندی ہے۔ اب بندہ بات کیا کرے! اِن حالات میں اگر ہم ملک میں مزید سو یونیورسٹیاں بھی بنا دیں جو دیکھنے میں ایم آئی ٹی اور ییل یونیورسٹی کے انفراسٹرکچر کو مات دیتی ہوں تو بھی نتیجہ صفر ہی نکلے گا۔ اور اسی لیے صفر ہی نکل رہا ہے! یہ ہے مسئلے کی جَڑ۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگ یہ سوال کریں کہ میں اِس قدر تیقن کے ساتھ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ مسئلے کی جَڑ یہی بات ہے؟ یہ ایک جائز سوال ہوگا۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دنیا کی بہترین جامعات میں کیا ہوتا ہے، وہاں کیسا ماڈل رائج ہے، کیا وہاں بھی ایسے ہی کرفیو نافذ کیا جاتا ہے جیسا ہماری جامعات میں کیا جاتا ہے، کیا وہاں طلبہ یونین پر پابندی ہے، کیا وہاں پی ایچ ڈی کرنے والے پر لازم ہے کو وہ فہمِ انجیل کا کورس بھی پڑھے، کیا وہاں ہر قسم کا سوال کرنے کی آزادی ہے یا فقط فیکلٹی کی زیر نگرانی منعقد کروائی جانے والی تقریبات میں ہی تالیاں پیٹ کر آپس میں داد و تحسین سمیٹ لی جاتی ہے، کیا وہ جامعات کسی کالج کی طرح فقط ڈگری تقسیم کرنے کا کام کرتی ہیں یا حقیقی معنوں میں تحقیق بھی کی جاتی ہے اور اگر تحقیق کی جاتی ہے تو کیا اُس کا نتیجہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی ایجاد کی صورت میں نکلتا ہے یا وہ نام نہاد تحقیق کسی دو نمبر قسم کے مجلّے میں شائع کروا دی جاتی ہے تاکہ تنخواہ میں انکریمنٹ لگ جائے؟ میرا حسنِ ظن ہے کہ جب آپ اِن سوالات کے جوابات تلاش کریں گے تو لامحالہ اسی نتیجے پرپہنچیں گے جس پر یہ فدوی پہنچا ہے۔اگلا سوال یہ ہوگا کہ آئیڈیلی کیا کرنا چاہیےتو جواب ہوگا کہ دو کام کرنے چاہئیں، پہلا، نئی جامعات بنانا بند کرنا ہوگا اور دوسرا، موجودہ یونیورسٹیوں میں وہ ماحول پیدا کرنا ہوگا جو دنیا کی بہترین جامعات میں ہے۔ اگر ہماری پانچ جامعات میں بھی یہ کام ہو گیا تو میں سمجھوں گا محنت وصول ہو گئی۔ یہ ماحول ایسے پیدا نہیں ہوگا کہ کسی وی سی نے کن فیکون کہہ دیا اور ہو گیا۔ اِس کیلئے نوکری داؤ پر لگانی پڑے گی اور ”پریشر کا دباؤ“ لینا پڑے گا۔ ویسے یہ میں نے کچھ زیادہ ہی کہہ دیا ہے، ایک مرتبہ جب کسی یونیورسٹی میں وی سی کو تعینات کر دیا جاتا ہے تو اسے برخاست کرنا کوئی آسان نہیں ہوتا، سو اگر کوئی چاہے تو اپنی نوکری بچا کر بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ یونیورسٹیاں محض اِس لیے نہیں بنائی جاتیں کہ وہاں نو سے پانچ بجے تک دفتر آیا جائے، حاضری لگائی جائے، کلاس پڑھائی جائے اور تنخواہ وصول کی جائے، جامعات کا کام سائنس دان، فلسفی اور دانشور پیدا کرنا ہوتا ہے، نوکری پیشہ مزدور تو گورنمنٹ ڈگری کالج ساہیوال بھی پیدا کر لے گا (اہالیان ساہیوال سے معذرت کے ساتھ)۔ مجھے اکثر یونیورسٹی میں طلبا اور اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے جہاں میں ایسی ہی جلی کٹی باتیں سناتا ہوں، جواب میں کچھ وی سی صاحبان اپنی غزل بھی سناتے ہیں جس میں مطلع سے لے کر مقطع تک وہ محبوب کی بجائے اپنی ذات کی تعریفیں یوں بیان کرتے ہیں کہ غالب بھی شرما جائے۔ میرا ایک ہی مدعا ہوتا ہے کہ اگر ملک کی یونیورسٹیاں اور اُن کے وی سی خواتین و حضرات ایسا ہی عمدہ کام کر رہے ہیں تو ہماری جامعات سائنس دان، دانشور اور فلسفی پیدا کرنے کی بجائے نوکری کے متلاشی روبوٹ کیوں پیدا کر رہی ہیں؟ اِس سوال کے جواب میں مسئلے کی جَڑ موجود ہے۔

تازہ ترین