مصنّف: انوار احمد
صفحات: 295 ، قیمت: 1000روپے
ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب، پاکستان، پوسٹ بُکس نمبر 17667،کراچی۔
فون نمبر: 2431711 - 0306
انوار احمد کا تعلق ایک علمی و ادبی اور مذہبی گھرانے سے ہے۔ اُن کے ددھیال اور ننھیال نے جو اسکالرز اور جیّد علماء پیدا کیے، اُن کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ برِصغیر کے ممتاز و معتبر شاعر، نازش پرتاب گڑھی، انوار احمد کے حقیقی ماموں تھے۔
انوار احمد خود بھی خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں اور اُن کی تین کتابیں منظرِ عام پر آچُکی ہیں۔ 2022ء میں اُن کے تحریر کردہ خاکوں پر مشتمل پہلی کتاب’’کچھ خاکے، کچھ باتیں‘‘ شائع ہوئی تھی، اُس پر بھی ہم نے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں تبصرہ کیا تھا۔
بلاشبہ، ان کا اندازِ تحریر اِتنا دل چسپ اور رواں دواں ہے کہ قاری اُن کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے اور جس لکھاری کی تحریروں میں یہ وصف موجود ہو، اُسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ زیرِ نظر کتاب میں 28خاکے ہیں اور ہر خاکہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی خُوبی رکھتا ہے۔
ادب، سیاست اور سماج ان کے بنیادی موضوعات ہیں، لیکن اُنہوں نے ہر موضوع کا حق ادا کیا ہے۔ اُنہوں نے جن شخصیات پر خاکے لکھے ہیں، اُن کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ، لیکن سیاست دانوں اور سیاسی موضوعات پر جو خاکے تحریر کیے ہیں، اُنہوں نے بہت متاثر کیا۔
ان کا تجزیاتی انداز اُنہیں دوسرے خاکہ نگاروں سے ممتاز کرتا ہے کہ انوار احمد خاکہ نگاری کی تیکنیک سے بخوبی واقف ہیں، اِسی لیے اُن کے خاکوں میں وہ انداز دَر آیا ہے، جسے بڑے خاکہ نگاروں نے مروج کیا تھا۔ کتاب میں انوار احمد کی خاکہ نگاری سے متعلق شاہد حسین، ڈاکٹر شبنم ارمان اور سیّد معراج جامی کے مضامین بھی شامل ہیں۔