زہرا یاسمین
تعلیمی اداروں کا، خواہ سرکاری ہوں یا نجی، چھوٹے ہوں یا بڑے، بنیادی مقصد درس و تدریس ہوتا ہے۔ تاہم، درس گاہوں میں طلبہ کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ان کی مہارتوں میں اضافے کے لیے وقتاً فوقتاً ہم نصابی سرگرمیوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں عام طور پر مختلف کھیلوں، آرٹس، ڈرائنگ اور تقریروں کے مقابلوں کے علاوہ کوئزشوز، ٹیبلوز اور اصلاحی ڈرامے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں، دُنیا بَھر میں اچّھے اور معتبر تعلیمی اداروں کا ایک خاص معیار و وقار اور کچھ مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار و روایات ہوتی ہیں، جن کی نہ صرف ہر صُورت پاس داری کی جاتی ہے، بلکہ اس ضمن میں باقاعدہ پالیسی بھی مرتّب کی جاتی ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بیش تر تعلیمی ادروں میں، جن میں معروف اور غیرمعروف دونوں قسم کی درس گاہیں شامل ہیں، ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر بے مقصد اور غیراخلاقی سرگرمیوں کا انعقاد عام ہوگیا ہے۔ مثلاً، بعض تعلیمی اداروں میں پاکستانی، بھارتی اور انگریزی گانوں پر طلبا وطالبات کے مخلوط رقص کے پروگرامز منعقد کیے جا رہے ہیں، جو بےمقصد ہونے کے ساتھ ہمارے تعلیمی اداروں کے وقار اور مذہبی و سماجی اقدار کے یک سَر منافی بھی ہیں۔
واضح رہے، ان میں سے بعض گیت فحش، بے ہودہ الفاظ کے ساتھ کُفریہ اور شرکیہ کلمات پر بھی مبنی ہوتے ہیں، جنہیں سُن کر طلبہ تیزی سے فحش گوئی، بے ہودگی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ مختلف اسکولز اور کالجز میں فیشن شوز کے نام پر طلبہ سے جوڑوں کی صُورت غیر ساتر مغربی لباس میں کیٹ واک بھی کروائی جارہی ہے، جس کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہ قول اقبالؔ؎ شکایت ہے مُجھے یاربّ خداوندانِ مکتب سے… سبق شاہیں بچّوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا۔
یاد رہے، تعلیمی اداروں میں اس قسم کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا انعقاد اسلامی و مشرقی اقدار اور تہذیب و تمدّن کی بقا کے لیے خطرہ اور ہمارے لیے مِن حیث القوم لمحۂ فکریہ ہے، جس کا سدِ باب ازحد ضروری ہے۔ دوسری جانب ہمیں طلبہ کی بہترین خطوط پر شخصیت سازی و متوازن نشوونما کے لیے درس گاہوں میں مثبت وتعمیری تربیّتی سرگرمیوں کے انعقاد پر توجّہ دینا ہوگی اور اس ضمن میں حکومت اور نجی اسکولز کے مالکان کو مل کر سنجیدگی کے ساتھ لائحہ عمل یا پالیسی وضع کرنی ہوگی، تاکہ تعلیمی اداروں کو ان کے قیام کے اصل مقصد سے آراستہ کر کے نسلِ نو کی آب یاری کا فریضہ انجام دیا جا سکے۔