برادر عزیز نصرت جاوید نے مستحکم جمہوری انقلاب بپا کرنے کے حوالے سے ’’سوشل میڈیا‘‘ کو ’’واہمہ‘‘ قرار دے کر ایک پُرانی بحث کا نیا دریچہ کھول دیا ہے۔ بلاشبہ کبھی یہ ’’واہمہ‘‘ یا ’’سرابِ نظر‘‘ تھا مگر ’’بہار ِعرب‘‘ کے فیضان سے کھِلے گلستانوں کے بعد یہ ’’واہمہ‘‘ نابود ہوگیا۔ معلوم پڑا کہ فوری جذباتی اشتعال، جھنجھلاہٹ، غیض وغضب اور بے سمتی جابروں کے تختے تو اُلٹ سکتی ہے، ریاستوں اور خلقِ خدا کی تقدیریں نہیں بدل سکتی۔ پندرہ برس قبل، دسمبر2010میں، حالات سے تنگ ایک تیونسی نوجوان، محمد بن بُو عزیزی نے خودسوزی کرلی۔ صدر زین العابدین کے طویل اقتدار سے تنگ آئے ، جبر کی چکی میں پستے عوام کا لاوہ پھٹ پڑا۔ ’سوشل میڈیا‘ نے توپوں کے دہانے کھول دیے۔ زین العابدین فرار ہوکر سعودی عرب پہنچا۔ نو برس بعد انتقال ہوا تو مدینہ منورہ میں دفن کردیاگیا۔
تیونس، ’سوشل میڈیا‘ کی فتح عظیم کا استعارہ بن کے ابھرا۔ اُس کے قومی پھول، ’چنبیلی‘ کی مناسبت سے فرانس کے ایک مفکر نے ، اِسے ’’انقلابِ یاسمین‘‘ کا رومانوی نام دے دیا۔ مشرق وسطیٰ امور کے ماہر ایک معروف امریکی مبصر، مارک لنچ (March Lynch) نے فارن پالیسی میں لکھے اپنے ایک آرٹیکل میں اِسے ’بہارِ عرب‘ (Arab Spring) کا نام دے کر ’’سوشل میڈیا‘‘ کے ماتھے کا جُھومر بنا دیا۔ گزشتہ پندرہ برس کی کہانی، تفصیل مانگتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ تیونس، ہمہ نوع زوال کی نئی پستیوں میں لڑھک چکا ہے۔ یہ اولیں تاثر خاک ہوا کہ شاید تیونس ’’بہارِ عرب‘‘ کی شاخ پہ کھلنے والا پہلا جمہوری ملک ہوگا۔ وہاں اِن دنوں قیس سعید نامی شخص کی حکمرانی ہے جو 2019ءسے صدارت سنبھالے بیٹھا ہے اور گزشتہ سال ایک ایسے انتخابات میں 90.6 فی صد ووٹ لے کر نئی میعادِصدارت سنبھال لی، جس میں ووٹوں کی شرح صرف28 فی صد تھی۔ فوج کے پہرے میں کھڑی پارلیمنٹ معطل اور غیرفعال، ارکان کے حقوق اور ضمانتیں ختم، متفقہ آئین قصہ پارینہ، لامحدود اختیار کا حامل خود وضع کردہ دستور، شہری آزادیوں پر شدید قدغنیں، سوشل میڈیا پر کسی سرکاری اہلکار یا ادارے کے بارے میں بال برابر گستاخی کی سزا چھ برس قید اور بھاری جرمانے۔ آج تیونس زین العابدین نہیں، قیس سعید کی جنبش لب کا نام ہے۔ پہلے سے کہیں تباہ حال، پہلے سے کہیں اذیت ناک، ’’وَن آن وَن‘‘ نامی تازہ عوامی سروے میں 87 فی صد افراد نے شدید مایوسی اور بداعتمادی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہماری زندگی زیادہ اجیرن ہوچکی ہے۔ فروری 2011ءکی ایک رُوپہلی صبح ’چنبیلی‘ نے اُڑان بھری اور قاہرہ کے ’’میدان التحریر‘‘ (تحریر چوک) جاپہنچی۔ بتیس برس سے قابض حُسنی مبارک نے اقتدار مسلح افواج کو سونپا اور اپنے ذاتی محل منتقل ہوگیا۔ 2012کے انتخابات ’’اخوان المسلمون‘‘ نے جیت لئے۔ محمدمُرسی نے پہلے جمہوری صدر کا حلف اٹھالیا۔ چند ماہ بعد مُرسی کا تختہ الٹ کر آرمی چیف جنرل عبدالفتاح نے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔ 2013ء میں مُرسی کے حامیوں کے اجتماع پر افواج نے یلغار کردی۔ ایک ہزار سے زائد افراد بھون ڈالے گئے۔ قاہرہ، پہلے سے کہیں زیادہ قاہر موسموں کی گرفت میں ہے۔ حُسنی مبارک کا 91 برس کی عمر میں انتقال ہوا تو تابوت قومی پرچم میں لپیٹا گیا۔ وزیراعظم اور کابینہ سمیت افواج نے گارڈ آف آنر پیش کیا اوراُسے اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کردیا۔ مصر کے نئے حُسنی مبارک کا نام جنرل عبدالفتاح ہے جسکے اقتدار کو اب تیرھواں سال آن لگا ہے۔ عالمی شاطر، من پسند مہرے چلا رہے ہیں۔
فروری 2011میں ہی، تیونس کی چنبیلی طرابلس پہنچی اور 42 سالہ مطلق العنان اقتدار کے حامل کرنل معمر قذافی کے دروازے پر دستک دی۔ اب کے عالمی ضمیر بھی پھڑک اٹھا۔ اقوام متحدہ اور نیٹو حرکت میں آئے۔ لیبیا بموں کا نشانہ بنا۔ اکتوبر میں معمر قذافی کو بے دردی سے مار کر صحرا کے کسی گمنام گوشے کی نذر کردیاگیا۔ لیبیا آج بھی انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ کوئی مستحکم مرکزی نظم قائم نہیں۔ عالمی گماشتوں کی ایک کٹھ پتلی کو حکومت قرار دے دیا گیا ہے۔ ملک شدید معاشی بدحالی، بدامنی، مسلح گروہوں کی جتھہ بندی، سیاسی مفادی گروہوں کی آویزش، خانہ جنگی، مہنگائی، بے روزگاری، جرائم، کرپشن، اقربا پروری اور عدم استحکام کا مثالی نمونہ بن چکا ہے۔ اسکی ایک بڑی شہرت، غیرقانونی تارکین وطن کے ’’ٹرانزٹ کیمپ‘‘ کی ہوکے رہ گئی ہے۔ واہموں کے خواب تراشتا اور سرابوں کا تعاقب کرتا ’سوشل میڈیا‘، ’بہارِ عرب‘ کے طلائی بجرے میں سوار یمن پہنچا۔ چنبیلی نے چونتیس برس سے اقتدار پر قابض علی عبداللہ صالح طنطاوی کو پیامِ رُخصت دیا۔ اُس نے جان بخشی کے نام پر استعفیٰ دے دیا لیکن حوثیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آج یمن کو تمام عالمی ادارے سب سے بڑے انسانی المیّے کا نام دیتے ہیں۔ کوئی مستحکم مرکزی حکومت نہیں۔ دارالحکومت صنعا، حوثیوںکے تسلط میں ہے۔ ایک نام نہاد صدارتی کونسل کو باضابطہ حکومت مانا جاتا ہے۔ عالمی اور گردوپیش کے ممالک نے اپنے اپنے مفاد میں یمن کے اندر کئی چھوٹے چھوٹے ’یمن‘ بنا رکھے ہیں۔ چار سُو بھوک، ننگ، افلاس، بیماریوں، وباؤں، بے روزگاری، مہنگائی، فاقہ کشی، لوٹ مار اور افراتفری کا آسیب، رقص کررہا ہے۔ 2023کے گیلپ پول کے مطابق 71 فی صد لوگوں کاکہنا ہے کہ ہمیں دو وقت کا پورا کھانا نہیں ملتا۔
مارچ 2011میں ’بہارِ عرب‘ کا قافلۂِ رنگ و بُو بشار الاسد کے دمشق پہنچا۔ شام کے ’’نونہالانِ سوشل میڈیا‘‘ نے پل بھر میں اسے طوفان میں ڈھال دیا۔ بشار نے اپنے طاقت ور اتحادیوں کے زور پر بھرپور مزاحمت کی۔ اس مزاحمتی جنگ میں پانچ لاکھ افراد قتل ہوگئے جن میں بڑی تعداد ’’واہمہ پرست‘‘ نوجوانوں کی تھی۔ لاکھوں بے گھر ہوئے۔ لاکھوں نقل مکانی کرگئے۔ شرق وغرب اور شمال وجنوب میں اپنے اپنے آقا رکھنے والی حکومتیں قائم ہیں۔ اختیار واقتدار سے محروم بشار الاسد، روس کی بھرپور مدد سے تحکم قائم رکھنے کی کوشش میں ناکام ہوچکا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ وہ فرار ہوکر ماسکو جا بسا ہے ۔ اُدھرکٹے پھٹے شام کے مفلوک الحال عوام کا حال یہ ہے کہ 90 فی صد خطِ غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک چکے ہیں۔
’واہمے‘ کے گمانستان سے جنم لینے والی ’’بہارِ عرب‘‘ ریگزاروں کی ریت اڑاتی، بگُولے بناتی، کانٹوں بھرے جھاڑ جھنکار کا کوہِ گراں سمیٹے عالم عرب کے پانچ ممالک میں رقص کررہی ہے۔ آمروں اور جابروں کے تختے الٹ گئے۔ لیکن جس ستم رسیدہ خلقِ خدا کی زندگی میں کوئی تبدیلی آنا تھی، اُن کے دِن پہلے سے کہیں زیادہ کڑے، راتیں پہلے سے کہیں زیادہ بھاری ہوچکی ہیں۔ سوشل میڈیا‘ کا ’واہمہ‘ یہی معجزہ دکھا سکتا تھا۔ اس کا طلسم ٹوٹ چکا۔ ایک حقیقت، درودیوار پر کندہ ہوچکی ہے کہ فتنہ وفتور کی بے مہار لہر کو ’سوشل میڈیا‘ کا پُرشباب نام دیں، چنبیلی کہیں یا ’بہارعرب‘ کا معطّر خطاب، سب محض غارت گری کا نسخہ ہیں۔
سوشل میڈیا ابھارکو بہارِ عرب (Arab Spring) کا نام دینے والے امریکی مبصر اور کالمسٹ مارک لنچ نے صرف چار برس بعد 2014ء میں ’اعتراف واہمہ‘ کرتے ہوئے اپنے آرٹیکل میں لکھا ’’میری وضع کردہ اصطلاح ’بہار عرب غالباً قبل از وقت تھی جسکے تحت عالمِ عرب میں ایک جمہوری انقلاب کا تصور اخذ کرلیا تھا۔ لیکن اصل میں ہوا یہ کہ بیشتر احتجاجی ابھار، تازہ دم آمریتوں، خانہ جنگیوں اور ریاستوں کے انہدام پر منتج ہوئے۔‘‘ آمروں اور جابروں کی معلوم ونامعلوم قبروں پر کس نے جانا ہے؟ نہیں معلوم تیونس کے چھبیس سالہ ریڑھی بان، محمد بن بُو عزیزی کے مزار یا اُسکی ریڑھی کے مجسمے پربھی کوئی تازہ دم، معصوم، اُجلی چنبیلیوں کے ہار ڈالنے جاتا ہے یا نہیں۔