ایمپریس مارکیٹ صدر کراچی کے پچھواڑے میں گھریلو یعنی ڈومیسٹک جانوروں اور پرندوں کا ایک اچھا خاصا بازار لگتا رہتا ہے ۔ گھر پر پرندے اور جانورپالنے کے شوقین اکثر اس بازارمیں دکھائی دیتے ہیں ۔ بہت پرانا بازار ہے ۔ آج سے تقریباً سوا سو برس پہلے برطانیہ کی رانی وکٹوریا کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کلکتہ میں وکٹوریا میموریل اور کراچی میں ایمپریس مارکیٹ بنوائے گئے تھے۔ میںوثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ گھریلو پرندوں اور جانوروں کا بازار بھی ایمپریس مارکیٹ کے برابر پرانا ہے۔ میں اپنی نوے سالہ زندگی میں بچپن سے پرندوں اور گھریلو جانوروں کا بازاردیکھ رہا ہوں ۔ نسلی کتوں اور بلیوں کے علاوہ بازار میں خرگوش بھی بکتے ہیں ۔
آج کا قصہ بہت پرانا قصہ نہیں ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ حال ہی کا قصہ ہے۔ ایک اُجڑا ہوا شخص کافی دیر سے پنجروںمیں بند پرندے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ وہ خاص قسم کا پرندہ تلاش کررہا تھا، مگر پرندہ اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دراصل اُجڑے ہوئے شخص نے خود بھی کبھی وہ پرندہ دیکھا نہیں تھا۔ اس نے صرف پرندےکا نام سن رکھا تھا اور اس کے کام سے واقف تھا۔ پرندے کا نام تھا ہما ۔ اُجڑے ہوئے شخص نے سن رکھا تھا کہ ہما اگر کسی کے سر پر بیٹھ جائے یا اس کے سر کے قریب سے اُڑتے ہوئے گزرجائے تو اس شخص کو ملک کی حاکمیت نصیب ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ ملک کا حاکم بننے کے لیے آپ کو پڑھنے لکھنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ کسی قسم کی تربیت اور علم کی ضرورت نہیں ہے۔ بھول چوک سے اگر ہما آپ کے سر پر بیٹھ جائے تو آپ بغیر پاپڑ بیلے ملک کے سربراہ بن جاتے ہیں۔ اُجڑے ہوئے شخص کو اسی نوعیت کے پرندے کی تلاش تھی۔ چالاک دکاندار اُجڑے ہوئے شخص کو چکر دینے میں ایک دوسرےسے سبقت لے جانے میں لگے ہوئے تھے۔ حقیقت میں دکانداروں نے خود بھی کبھی ہما نام کا پرندہ دیکھا نہیں تھا۔ وہ لوگ بھی اُجڑے ہوئے شخص کی طرح سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتے تھے۔
مگر ایک چالاک کو چالاکی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ ایک چالاک دکاندار نے گدھ نما بڑا سا گندا پرندہ اُجڑے ہوئے شخص کو دکھاتے ہوئےکہا۔ ’’سر !یہ ہے ہما۔ اگر کسی کے سر پر سوار ہوجائے تو اسے ملک کا سربراہ یعنی حاکم بناکر چھوڑتا ہے‘‘۔
اُجڑے ہوئے شخص نے شک وشبے اور بدگمانی سے گدھ جیسے غلیظ پرندے کی طرف دیکھتے ہوئے دکاندار سے پوچھا ، ’’کتنے لوگوں کے سر پر یہ پرندہ بیٹھ چکا ہے؟ اور کتنے لوگوں کو ملک کا سربراہ بنا چکا ہے ؟‘‘
کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے دکاندار نے کہا۔ ’’سر!آپ کے دلفریب سر کے علاوہ آج تک میں نے ایسا کوئی سر نہیں دیکھا ہے کہ جس کے سر پر اگر یہ ہما بیٹھ جائے اور اسے ملک کا سربراہ بنادے‘‘۔
شک وشبہ کے باوجود دکاندار کی بات سن کر اُجڑا ہوا شخص بہت خوش ہوا۔ تب پنجرے میںبند ایک طوطے نے اُجڑے ہوئے شخص سے کہا۔ ’’دکاندار جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ گندا پرندہ مرے ہوئے لوگوں کے سر پر بیٹھتا ہے اور ان کے سر سے بھیجا نکال کر کھا جاتا ہے‘‘۔دکاندار نے غصہ سے طوطے کی طرف دیکھتے ہوئے اُجڑے ہوئے شخص سے کہا۔ ’’سر! یہ جھوٹا طوطا سرکاری گواہ رہ چکا ہے۔ زندگی بھر عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دیتا رہا ہے۔ جھوٹ بولنا اس کی عادت ہے‘‘۔
اُجڑے ہوئے شخص نے بولنے والے طوطے اور دکاندار کے درمیان ہونے والی گفتگو میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی اور آگے بڑھ گیا۔ایک دکان میں اسے خوبصورت پرندے دکھائی دیے ۔ اندر جاکر اُجڑے ہوئے شخص نے رنگ برنگے پرندوں کاجائزہ لیا۔ ایک بے انتہا رنگین پرندہ اُجڑے ہوئے شخص کو بہت اچھا لگا۔ اُجڑے ہوئے شخص نے دکاندار سے پوچھا، ’’کیا یہ ہما نامی پرندہ ہے؟‘‘
دکاندار نے کہا۔’’وہ تو میں نہیں جانتا کہ یہ پرندہ بذات خود ہما ہے، یا کہ ہما کا ٹیلنٹڈ کزن ہے‘‘۔
اُجڑے ہوئے شخص نے پوچھا۔ ’’اس پرندے کے بارے میں تم اور کیا جانتے ہو؟‘‘
دکاندار نے کہا۔’’ایک راز کی بات جانتا ہوں ‘‘۔
اُجڑے ہوئے شخص نے پوچھا ۔’’راز مخفی ہے، یا کہ کھلم کھلا ہے؟‘‘’’کھلم کھلا راز ہے‘‘۔ دکاندار نے کہا۔ ’’اول تو یہ رنگ برنگا پرندہ اپنی پسند کے شخص کے علاوہ کسی کے سر پر نہیں بیٹھتا ۔ اگر کسی وجہ سے بیٹھ جائے تو پھر دو قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ وہ شخص ملک کا سربراہ بن جاتا ہے، یا پھر اپنی آل اولاد کے ساتھ مسمار ہوجاتا ہے۔ نیست و نابود ہوجاتا ہے‘‘۔
اُجڑا ہوا شخص عجلت میں دکان سے باہر نکل گیا۔ کافی دیر تک دکانوں میں گھومنے پھرنے اور پرندوں میں ہما تلاش کرنے کی غرض سے اُجڑا ہوا شخص ایسی دکان میں داخل ہوا جس میں تمام پرندے پنجرے کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے ۔ پنجرے خالی تھے۔ دکاندار نے اُجڑےہوئے شخص سے کہا ۔ ’’ میرے یہاں اصلی اور خالص ہما ملتے ہیں‘‘۔ ایک ہما پرندہ اُجڑے ہوئے شخص کو دکھاتے ہوئے دکاندار نے کہا۔ ’’اس ہما کے آپ کے سر پر بیٹھنے کے بعد آپ نہ صرف ملک کے سربراہ بن بیٹھیں گے، آپ اپنے نواسے ، نواسیوں ، اور پوتے پوتیوں کے ساتھ سرکاری خرچ پر دنیا بھر کی سیر کریں گے‘‘۔ اُجڑے ہوئے شخص نے ہما خرید لیا۔ آج کل وہ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو گود میں اُٹھائے سرکاری خرچ پر دوسرے ملک کی سیر کررہا ہے۔ وہ کس ملک کا سربراہ ہے، یہ تو میں بھی نہیں جانتا۔