یہ ایک اسکول کی تقریب تھی جہاں میں نے بارہ سے اٹھارہ سال کے بچوں کیساتھ گفتگو کرنی تھی، بات چیت کے بعد سوال جواب کا سلسلہ تھا، میرا خیال تھا کہ اسکول کے بچے دو چار معصومانہ سوالات کرکے بیٹھ جائینگے مگر انہوں نےاچھے خاصے مشکل سوال کرکے مجھے حیران کر دیا۔ جس سوال کی وجہ سے میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں وہ کچھ یوں تھا کہ اگر آپ کو اپنی زندگی دوبارہ گزارنے کا موقع ملے تو کیا آپ پرانی زندگی سے کچھ حذف کرنا چاہیں گے؟ ایک دفعہ تو میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہ اِسکا کیا جواب دوں کیونکہ ہر بندے کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے ضرور ہوتے ہیں جو باعث شرمندگی ہوتے ہیں تو کیا موقع ملنے پر انہیں حذف نہیں کر دینا چاہئے! پھر مجھے بچپن میں دیکھا ہوا ایک ڈرامہ یاد آ گیا، I Dream of Jeannie جو سونی ٹی وی پر نشر ہوتا تھا۔ اُس میں ایک آقا کے تصرف میں جینی ہوتی ہے جو اُس کا ہر حکم بجا لاتی ہے، ایک مرتبہ مالک نے حکم دیا کہ آج بارش برسائی جائے، جینی نے جواب میں کہا کہ بارش تو میں برسا دونگی مگر اِس کی جگہ فلاں ملک میں قحط سالی ہو جائیگی، مالک نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوگا تو جینی نے بتایا کہ وہ کسی اور خطے کی بارش کو یہاں برسا سکتی ہے مگر نئی بارش تخلیق نہیں کر سکتی، گویا اکاؤنٹنگ کے اصول کی طرح ایک جگہ ڈیبیٹ ہوگا تو دوسری جگہ کریڈٹ۔ یہی جواب میں نے اُس بچے کو دیا کہ اگر میں سوچ بچار کرکے اپنی زندگی کا کوئی لمحہ حذف بھی کر دوں تو مجھے نہیں معلوم کہ اُسکی جگہ مالک نے میرے مقدر میں کیا کریڈٹ کر دینا ہے لہٰذا میں نے جو زندگی گزاری، اُسکی بیلنس شیٹ ٹھیک ہے، اُس میں سے کچھ حذف نہیں کرنا۔ زندگی میں اکثر ایسے موقع آتے ہیں جب بندہ سوچتا ہے کہ اگر میں نے فلاں وقت پر کوئی دوسرا فیصلہ کیا ہوتا تو آج میرے حالات مختلف اور کہیں بہتر ہوتے۔ اِس طرح سوچنے میں کوئی حرج نہیں، انسان کو اپنے فیصلوں کی پڑتال کرتے رہنا چاہیے تاکہ ماضی کی غلطیاں مستقبل میں نہ دہرائی جائیں۔ مگر اِس طرح سوچتے ہوئے ہم یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ جو فیصلہ ہم نہیں کر پائے اُس کے مضمرات کا ہمیں ادراک نہیں ہو سکتا۔ ہمیں یہ تو علم ہو سکتا ہے کہ جس فیصلے کے نتیجے میں آج ہم زندگی میں جہاں کھڑے ہیں اُس فیصلے کی کیا قیمت تھی جو ہم نے ادا کی اور اُسکے بدلے میں ہم نے کیا پایا مگر ہمیں یہ علم نہیں ہو سکتا کہ جو فیصلہ ہم نہیں کر پائے اُسکا نتیجہ کیا نکلتا کیونکہ ضروری نہیں کہ اُس کا وہی نتیجہ نکلتا جو ہم نے دماغ میں سوچا ہوتا ہے۔ معافی چاہتا ہوں بات کچھ پیچیدہ ہو گئی، رابرٹ فراسٹ سے مدد لیتے ہیں جس کی نظم The Road not Taken اسی کشمکش کو بیان کرتی ہے۔ نظم میں شاعر جنگل میں دو حصوں میں بٹے ہوئے راستوں کو دیکھتا ہے اور ایک کا انتخاب کرتا ہے، برسوں بعد وہ افسوس یا پچھتاوے کے انداز میں کہتا ہے کہ ”میں نے وہ راستہ اختیار کیا جو کم لوگوں نے اختیار کیا تھا، اور اسی نے میری زندگی میں سارا فرق پیدا کیا۔ I took the one less traveled by, And that has made all the difference۔ اصل میں یہ نظم فیصلے کے بعد پچھتاوے کا نوحہ ہے، زندگی میں جو راستہ ہم چُنتے ہیں اُسکے گڑھے تو ہمیں یاد رہتے ہیں مگر جس راستے پر ہم نہیں چلتے اُسکے بارے میں ہم خواہ مخواہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ موٹر وے ہی ہوگی۔ ہمارے ماضی کے فیصلے، چاہے وہ کتنے ہی غلط یا شرمناک کیوں نہ ہوں، ایک دوسرے سے جُڑے ہیں، یہ ممکن نہیں کہ آپ کسی ایک فیصلے کو ’ڈیبیٹ‘ کر دیں اور اُسکی جگہ کوئی دوسرا فیصلہ ’کریڈٹ‘ نہ ہو۔ زندگی ڈی این اے کی طرح ہے، اگر آپ اِس ڈی این اے میں سے ایک حرف حذف کر دیں گے تو لا محالہ اِسکی جگہ دوسرا حرف لیگا اور یوں ڈی این اے کا کوڈ تبدیل ہو جائیگا، اور یہ کسی کو معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کوڈ کیا ہوگا۔ ہمارا ماضی، حال اور مستقبل اسی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں کہ ایک معمولی سی تبدیلی بھی ہماری پوری زندگی کی کہانی کو بدل کر رکھ سکتی ہے۔
انسان بڑی عجیب و غریب مخلوق ہے، اِسکا ذہن ماضی کیساتھ متوازی کائناتوں میں بھی سفر کر سکتا ہے۔ جب کوئی شخص یہ سوچتا ہے کہ کاش میں نے 1990میں امریکہ کی شہریت حاصل کر لی ہوتی تو آج امریکی شہری کی حیثیت سے سکون کی زندگی گزار رہا ہوتا، تو اِس میں مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ کی شہریت ملنے کے بعد زندگی شرطیہ پُرسکون ہوتی جبکہ ایسی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اصل میں یہ خیالی جہاز انتہائی پرکشش ہوتا ہے کیونکہ اِس جہاز میں بیٹھ کر ہم خواب و خیال کی اُس دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہر بات ہماری مرضی اور منشا کے مطابق ہوگی، یہ نہیں جانتے کہ اُس خیالی دنیا میں بھی کوئی بچہ اگر ہم سے یہ سوال پوچھے گا کہ کیا آپ اپنی موجودہ زندگی سے کچھ حذف کرنا چاہیں گے تو آپ سوچیں گے کہ کاش میں اِس دنیا کی بجائے کائنات کے فلاں سیارے میں ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ”نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا.... ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔“ خیر، یہاں غالب تو یونہی درمیان میں آگیا، بنیادی طور پر جو سوال بچے نے پوچھا تھا وہ پچھتاوے سے متعلق تھا، یعنی زندگی میں پچھتاوے پیچھا کریں تو انسان کیا کرے۔ تین کام کیے جا سکتے ہیں۔ ایک، وہی غلطی دوبارہ نہ کی جائے، دوسرا، اپنا فیصلہ خود کیا جائے اِس سے پچھتاوے کی شدت کا احساس کم ہوتا ہے اور تیسرا، یہ سوچا جائے کہ انسان جذباتی ہوتے ہیں اور اُنکا ہر فیصلہ عقلی اور منطقی نہیں ہو سکتا، اِس لیے یہ سوچ سوچ کر ہلکان نہ ہوں کہ اِس بھری دنیا میں صرف آپ سے ہی درست فیصلہ نہیں ہو سکا اور باقی تمام دنیا تو افلاطون سے پوچھ کر فیصلے کرتی ہے۔ نہیں، اِس دنیا ایسا کوئی سیانا آج تک پیدا نہیں ہوا۔
سو پیارے بچو! ہمیں اپنی زندگی کو ایک میوزیم کی طرح دیکھنا چاہیے، جہاں ہر یاد، ہر شے، ہر نشان، خواہ وہ خوشی کا ہو یا غم کا، اپنی ایک کہانی سناتا ہے اور زندگی کا یہ میوزیم ایسا ہونا چاہیے کہ اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ اسی میوزیم میں واپس جانا چاہیں گے تو آپ کا جواب ہاں ہونا چاہیے کیونکہ کسی دوسرے جواب کی گنجائش ہی نہیں۔