• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر سننے کی غرض سے میں اپنی نشست سنبھال چکا تھا ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر سے قبل نیتن یاہو کی تقریر تھی اور اس کی تقریر کو اکثریت نے سننے سے انکار کرتے ہوئے جنرل اسمبلی سے باہر جانا مناسب خیال کیا تھا اس وجہ سے جب وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر کا آغاز ہوا تو سامعین نے ہال میں واپس آنا شروع کر دیا جس میں کچھ لمحے گزر گئے ۔ تقریر کا اثر سامعین پر مثبت انداز میں ہوا ویسے بھی گزشتہ مئی کے فوجی تصادم کے بعد پاکستان کی بات کو زیادہ غور سے سنا جا رہا ہے اور میں نے واشنگٹن اور نیو یارک میں جتنے بھی امریکیوں سے اس پر گفتگو کی چاہے انکا تعلق امریکی قانون سازوں سے ہو یا وہ مختلف تھنک ٹینکوں سے وابستہ افراد ہوں، ان سب کے نقطہ نظر میں پاک انڈیا فوجی تصادم کے بعد ایک واضح فرق ضرور محسوس ہو رہا تھا مگر اس سے اس خوش گمانی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہئے کہ تمام معاملات امریکہ سے طویل عرصے کیلئے بہتر ہو گئے ہیں ۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار بہت فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ بہت برق رفتار ربط ضبط قائم کر رکھا ہےلہٰذاانکی ٹیم بہت متحرک محسوس ہوئی ۔مستقل مندوب عاصم افتخار نے فون پر بات کی ہی تھی کہ چند لمحوں بعد امانت علی کا فون آ گیا اور پھر سارے وقت انکے باہمی ربط ضبط کو ملاحظہ کرتا رہا۔ وزیر اعظم کی تقریر سے منسلک امور کو بہت اچھی طرح سے نمٹایا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی امریکہ میں موجودگی اور پھر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی وجہ سے امریکیوں میں سے جس کسی سے بھی ملاقات ہوئی وہ پاکستان اور امریکا کی موجودہ دوستی پر پاکستان میں موجود سوچ پر گفتگو کرنا چاہتا تھا ۔ صدر ٹرمپ سے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی ملاقات کے تو اثرات یقینی طور پر مثبت ہی ہوئے مگر امریکا میں حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے والے ایک سوال بھی اٹھاتے ہوئے ملے کہ پاکستان موجودہ بہتر ہوتے تعلقات میں سفارت کاری کو بری طرح سے نظر انداز کر رہا ہے اور اسکی سب سے بڑی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ چلو جب فیلڈ مارشل کو صدر ٹرمپ نے دعوت دی تو اس کو ایک خالص فوجی امور کی ملاقات تصور کرتے ہوئے اس بات سے صرف نظر کیا جا سکتا تھا کہ اس ملاقات میں پاکستان کی وزارت خارجہ سے متعلقہ افراد موجود نہیں تھے مگر اب جب وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تو اس میں تو پاکستان کے وزیر خارجہ جو نائب وزیر اعظم بھی ہیں کو لازمی طور پر شامل ہونا چاہئے تھا ۔ صدر ٹرمپ کے ہمراہ جب مارک روبیو موجود تھے تو وزیر اعظم کے ہمراہ اسحاق ڈار کیوں موجود نہیں تھے ۔ ادھر یہ خیال اس ملاقات کے بعد پنپ رہا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ضرور بہتری کی جانب گامزن ہیں مگر سفارتی سطح پر کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی اور اگر امور کو ڈپلومیسی کی دنیا سے ہٹ کر چلایا گیا تو اس سے مستقبل میں کسی مس انڈر سٹینڈنگ کا امکان بڑھ سکتا ہے کیوں کہ اگر ڈپلومیسی میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں تو پھر سب کچھ نا پائیدار ثابت ہوگا ۔ ایک امریکی قانون ساز نے مجھے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ پاکستان اکثر اس پر بعد میں شاکی ہو جاتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو چھوڑ دیا مگر وہاں پر یہ بات نہیں ہوتی کہ امریکہ سے کوئی معاہدہ کرتے ہوئے پاکستان نے ایسا کون سا وعدہ لیا تھا کہ جسکی وجہ سے ہم پابند ہوتے ۔ پاکستان میں’’ڈو مور‘‘کا ایک مذاق بنا لیا گیا تھا مگر کوئی یہ نہیں بتاتا تھا کہ کیا امریکہ پاکستان سے اس سے زیادہ طلب کر رہا تھا جتنا پاکستان نے اس سے وعدہ کر رکھا تھا ۔ چلو وہ تو ماضی ہوا اور آمر کے دور کی بات ہوئی اب پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے کہ جس میں ریئر ارتھ منرلز سے لے کر اسٹرٹیجک امور تک سب شامل ہونگے۔اس دور میں تمام امور کو بہت صاف شفاف انداز میں نمٹانا چاہئے اور اس میں سفارت کاری کو مقدم رکھنا چاہئے ۔ جب صاف شفاف کا کہا جا رہا ہےتو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو تمام امور کو پاکستان کے سب سے مقتدر ادارے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا چاہئے ۔ اس بات کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس معاملے کی حساس نوعیت کے سبب پارلیمنٹ کی اس پر کھلی کارروائی ممکن نہیں ہے مگر پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس میں تو تمام اراکین پارلیمنٹ کے سامنے یہ معاملہ ضرور رکھنا چاہئے اور اپنی پارلیمنٹ کے تمام اراکین پر اعتماد کرنا چاہئے کیوں کہ اس طرح سے ملک میں جمہوریت کا تشخص بھی بہتر ہوگا ، بہتر سے بہتر رائے بھی حکومت کو دستیاب ہوگی جبکہ پاکستان نے مستقبل میں جن حالات کا سامنا کرنا ہے اس کی بھی مکمل طور پر وضاحت ہو جائےگی ۔ اگر ہم نے کوئی’’ ڈو مور‘‘ کرنا ہوگا تو اس کا بھی علم ہوگا اور انکار کرنا ہوگا تو وہ بھی سامنے ہوگا ۔ پارلیمنٹ پر سب کو اعتماد کرنا چاہئے ۔

تازہ ترین