• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل سیاسی گفتگو زیادہ تر پھیپھڑوں کے زور پر کی جاتی ہے، دلیل بھی پھیپھڑوں سے دی جاتی ہے اور شعور بانٹنے کا کام بھی انہی سے لیا جاتا ہے۔ ان حالات میں سیاسی گفتگو سے پرہیز دانائی کا مظہر ہے۔ لیکن کبھی کبھی کسی بہ ظاہر معقول شخص کو دیکھ کر آپ یہ رسک لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ آپ جاننا چاہتے ہیں معقول، تعلیم یافتہ لوگ ملکی سیاست کو کیسے دیکھ رہے ہیں، بالخصوص ان معاملات کو جنہیں آپ پُر ابہام جانتے ہیں۔ پچھلے ہفتے ہم نے یہ رسک لیا، اور عظمیٰ نسیم صاحبہ سے عمران خان کی سیاست کے نشیب و فراز سمجھنے کی کوشش کی۔ آئیے، آپ بھی اس بصیرت افروز گفتگو میں شامل ہو جائیں۔عظمیٰ ہماری بیگم صاحبہ کی کنیرڈ کالج کے زمانے سے سہیلی ہیں، ان کے والد عساکر کا حصہ رہے، شادی کے بعد وہ خاوند کے ہم راہ ترکیے جا بسی تھیں اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔ سیاسی طور پر وہ عمران خان کی حامی ہیں۔ سیاسی گفتگو کے دوران نہ ان کی رگیں پھولتی ہیں نہ کف اگلتی ہیں، تحمل سے بات سن بھی لیتی ہیں۔ ہم نے سوچا ان کوائف کی حامل شخصیت سے مکالمے کا موقع دوبارہ جانے کب ملے، سو ہم نے ندیدوں کی طرح ان سے باتیں کیں۔ پہلے انہوں نے پاکستان میں جمہوری قدروں اور جمہوری اداروں کے زوال پر سیر حاصل گفتگو کی، پارلے مان کی بے توقیری اور روایتی میڈیا کے ناقابل رشک کردار کا احاطہ کیا، 26ویں آئینی ترمیم کے لتے لیے اور پھر اس آہنی ہاتھ کو خون آلود قرار دیا جو سیاسی مخالفین سے نپٹنےکیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ان کی اکثر باتیں معقول تھیں اور ان سے اختلاف کی گنجائش کم کم تھی۔ آخر میں انہوں نے تیقن سے حکم صادر کیا کہ جو جو موجودہ نظام کے خلاف شمشیر عریاں نہیں ہے وہ اس’’جرم‘‘کا حصہ ہے۔ ان سے پوچھا کہ عمران خان جن’’بزرگوں‘‘کے کاندھے پر سوار ہو کر وزیراعظم ہاؤس پہنچے تھے اس بارے اب آپ کیا نکتہ نظر رکھتی ہیں۔ تو انہوں نے ترنت جواب دیا کہ’’ٹو رانگز ڈونٹ میک آ رائٹ‘‘۔ ان سے پوچھا کہ آپ اس وقت ایک’’رانگ‘‘ کی حمایت کیوں کر رہی تھیں؟ انہوں نے کہا بہت سی باتیں ہم نے حال ہی میں سیکھی سمجھی ہیں، اور اس کا شعور بھی انہیں عمران خان نے ہی دیا ہے۔کیا عمران خان اپنے خالق سے جھگڑے کے نتیجے میں جیل پہنچے ہیں یا وہ کسی اصول پر کھڑے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ عمران خان اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے کے باعث اڈیالا میں ہیں، وہ بھی ڈیل کر کے باہر جا سکتے تھے مگر وہ چاہتے ہیں کہ قانون کے راستے سے باہر نکلیں۔ پوچھا کہ کیا قانون کا راستہ راولپنڈی سے ہو کر جاتا ہے، جنہیں مذاکرات کی دعوت عمران دیتے ہی رہا کرتے ہیں؟ فرمانے لگیں کہ اس ملک میں قوانین پر خاک عمل ہوتا ہے۔ تو پھر قانونی راستے سے آپ کا لیڈر کیسے باہر نکلے گا؟ ہم نے پورے اخلاص سے سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ کیا نظریہ ہے جس پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے عمران جیل میں ہیں۔ عمران خان جمہوریت کے سپاہی ہیں؟ آئین کے محافظ ہیں؟ کس نظریے کے داعی ہیں؟ غالباً ہم اپنی کند ذہنی کے سبب یہ معاملہ تمام تر اخلاص کے باوجود نہ سمجھ پائے۔عمران خان اگر حکومت میں آئیں تو آپ کی ان سے کیا توقعات ہیں؟ ان کی پچھلی حکومت اور خیبر پختون خوا کی حکومت کی کارکردگی کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟ اس سوال کے جواب میں عظمیٰ نے بتایا کہ عمران خان طبقاتی لڑائی میں نچلے طبقے کے ساتھ ہیں، ان کو اوپر اٹھانا چاہتے ہیں، اور ان کی اقتدار میں واپسی اسی لیے ضروری ہے۔ ماضی میں صحت کارڈ اور لنگر خانے جیسے اقدام اسی ہدف کے تعاقب میں اٹھائے گئے تھے۔ ہماری گفتگو یہاں تمام ہو ئی۔ عمران خان کی ایک’’معتدل، معقول اور متوازن‘‘ حامی کی رائے ہم نے پورے اخلاص سے آپ تک پہنچا دی ہے، آپ اس سے جو چاہیں نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ہم صرف ایک نکتے پر اظہار رائے کرینگے، یعنی عمران’’ڈیل‘‘ نہیں کرینگے۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر کے کوئی انہیں ڈیل آفر کر بھی رہا ہے کہ نہیں، اس کی ضرورت بھی سمجھی جا رہی ہے کہ نہیں، اس کیلئے ریاست پر کوئی داخلی یا خارجہ دباؤ ہے بھی کہ نہیں؟ ایک گرفتار سیاستدان جیل سے باہر آنے کیلئے جو بھی راستہ نکالتا ہے، اسکے مخالفین اس راستے کیلئے ’’ڈیل‘‘ کا منفی لفظ استعمال کر کے سیاسی بیانیہ تخلیق کر رہے ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کو جب طاقت کے زور سے باندھ لیا جاتا ہے تو وہ ماکرین کے ساتھ مکر کرتے ہیں، انہیں چکر دیتے ہیں، غچہ دیتے ہیں، سادہ لفظوں میں صیاد کو بے وقوف بنا کر آزاد ہو جاتے ہیں۔ اور جیسے ہی پہلا موقع آتا ہے، معاہدہ توڑتے ہیں، شرائط پس پشت ڈالتے ہیں اور اپنے سیاسی ہدف کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے مختلف مواقع پر یہ’’ڈیل‘‘ کی اور پھر پہلا موقع ملنے پر ڈیل دینے والوں سے حساب چکتا کر دیا۔ نواز شریف نے تو ڈیل کرنے کے کچھ ماہ بعد ہی باجوہ اور عمران دونوں کی چھٹی کروا دی تھی۔ہم نے یہ بات عظمیٰ صاحبہ کے بھی گوش گزار کی مگر انہوں نے فرمایا کہ کپتان اپنے نظریے پر ڈٹ کے کھڑا ہے اور کبھی’’ڈیل‘‘ نہیں کرے گا۔ ہم نے ان کے جذبات کے احترام میں مسکرانے پر اکتفا کیا۔ مگر دل ہی دل میں کہا کہ عمران جب بھی جیل سے باہر آئے گا ’’ڈیل‘‘کر کے ہی آئے گا۔ دیکھتے جائیے۔

تازہ ترین