• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چونسٹھ ہزار انسانوں کو مروانے کے بعد بالآخر عالمی دباؤ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ اسلامی، عرب ممالک کی مشاورت سے اپنا بیس نکاتی غزہ امن روڈ میپ پیش کردیا ہے۔ ان آٹھ ممالک میں تین ترکیہ، انڈونیشیا ، پاکستان ، سعودی عرب، مصر، جارڈن، قطر اور یونائیٹڈ عرب امارات شامل ہیں۔‎ٹرمپ کا یہ غزہ امن روڈ میپ ہے کیا؟ اس کے بیس پوائنٹس کا جائزہ لینے کے ساتھ اس امر پر بحث ضروری ہے کہ یہ کس قدر قابلِ عمل ہے اور کیا اسکے نتیجے میں غزہ کی خونریزی واقعی بند ہوجائیگی؟ کیا یہ منصوبہ دو ریاستی حل میں معاونت کرئیگا؟ کیا بشمول حماس عام عرب اور مسلم عوام اسکی مخالفت میں کہیں اپنی ہی ریاستوں یا حکومتوں کے خلاف کھڑے تو نہیں ہوجائیں گے؟ یہ ’’ابراہیم اکارڈ‘‘کی ہی توسیعی شکل تونہیں جو مسلم ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف لے جائے؟؟ یہ حماس کو کچلنے اور اسرائیل تحفظ دینے کیلئے تو نہیں؟ کیا گارنٹی ہے کہ اسرائیل اپنے تمام یرغمالی چھڑوانےکے بعددیگر معاملات سے منحرف نہیں ہو گا؟‎ٹرمپ کے دباؤ پر نیتن یاہو نے واشنگٹن سے دوحہ کال ملاتے ہوئے قطری پرائم منسٹر سے اپنے ناجائز حملے کی معافی مانگی ہے اور قطر پر دوبارہ حملہ نہ کرنے کا عہد کیا ہے لیکن کیا گارنٹی ہےکہ امریکی پریشر ہٹنےپر آئندہ وہ کسی مسلم ملک پر حملہ نہیں کرئیگا؟ ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں نیتن یاہو نے ایک دم انگریزی روک کر عبرانی زبان میں اپنے ہم وطنوں کو یہ یقین دہانی کروانا ضروری سمجھا کہ اس امن منصوبے کو قبول کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوریاستی حل کو قبول کرنے جارہے ہیں‎،اس سے اسرائیل کے اندر عوامی سطح پر موجود اس دباؤ کا ادراک کیاجاسکتا ہے جو دو ریاستی حل کی بات بھی سننا نہیں چاہتا ۔ یہ درویش سات اکتوبر 2023ء سے پیہم واضح کرتا چلاآرہا ہے کہ اس حملے کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب دوبارہ کبھی کیمپ ڈیوڈ یا اوسلو اکارڈ جیسا کوئی معاہدہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان نہ ہوپائے گا کیونکہ 7اکتوبر کے روزدسونوں فریقوں کے بیچ رہے سہے اعتماد کا خون بھی ہوگیا تھا۔ اگرچہ ٹرمپ امن روڈ میپ میں 8اسلامک، عرب ممالک کی خواہش کے احترام میں انیسواں پوائنٹ یہ واضح کرتا ہے کہ امریکا خود اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات شروع کروائے گا تاکہ پرامن بقائے باہمی کیلئے ایک سیاسی افق طے کیاجاسکے۔‎یہ امر بہرصورت واضح رہنا چاہیے کہ غزہ امن منصوبے کا بنیادی مقصد دو برسوں سے جاری اس خونریز جنگ کا خاتمہ ہے جو اتنے بے گناہوں کی جانیں لے چکی ہے جس سے ہنستے بستے شہر اور قصبے کھنڈرات کے ڈھیر بن گئے۔ تباہ حال انفرسٹرکچر میں خیمہ بستیوں کی باتیں ہورہی تھیں بلکہ اس نوع کی تجاویز زیربحث تھیں کہ کیوں نہ عوام ہی کو مختلف گروہوں میں بانٹتے ہوئے دیگر ممالک میں بسانے کا اہتمام کردیاجائے نتیجتاً اسرائیل غزہ ہی نہیں ویسٹ بنک کا الحاق بھی اپنی ریاست کے ساتھ کرلے۔ ‎اب کم از کم ٹرمپ کے اس امن منصوبے میں یہ صراحت کردی گئی ہے کہ بحوالہ پوائنٹ نمبر16اسرائیل نہ تو غزہ پر قبضہ کرے گا اور نہ ہی اس کے کسی حصے کوضم کرے گا، اسرائیلی سیکیورٹی فورسز جونہی انخلا کریں گی انٹرنیشنل ڈیفنس فورس مرحلہ وار اسکا کنٹرول لیتے ہوئے یہاں استحکام قائم کرئیگی۔ اگر حماس اس امن روڈ میپ کو مسترد کردے گی یا تاخیری حربے اختیار کرے گی تب بھی انٹرنیشنل ڈیفنس اورسٹیبلٹی فورسز ان خطوں میں پرامن امدادی کارروائیاں جاری رکھیں گی جو ان کے حوالے کردیے گئے ہونگے۔ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا اولین نکتہ ہی یہ ہے کہ غزہ کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک خطہ بنایا جائے جو اپنے ہمسایوں اسرائیل اور مصر کیلئے خطرہ نہ ہو‎۔درویش یہاں یہ امر واضح کرنا چاہتا ہے کہ اس غزہ امن منصوبے کا اصل نقصان نہ توکسی عام فلسطینی کو ہے اور نہ اسرائیلیوں کو، نہ ہی کسی عام عرب یا غیر عرب کو، اس کا اصل ٹارگٹ صرف اور صرف حماس ہے جسکے کارکنوں کو عام معافی اور لائف سیکیورٹی کی ضمانت دی گئی ہے، شق نمبر6 کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی اور قیدیوں کے تبادلے کی کارروائی ہونے کے بعد حماس کے وہ ارکان جو پرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں اور ہتھیار ڈال دیں انہیں عام معافی دی جائے گی جو غزہ میں رہنا چاہیں رہیں اور جو چھوڑنا چاہیں انہیں محفوظ رستہ دیاجائے گا اور قبول کرنیوالے ممالک جانے کی سہولت دی جائیگی اس کے باوجود درویش کا گمان ہے کہ حماس چونکہ اس منصوبے کو اپنی سیاست یا طاقت کا خاتمہ سمجھ رہی ہے وہ اسے مسترد کردئیگی حالانکہ اب اسے کوئی بڑی بیرونی سپورٹ حاصل نہیں رہی سوائے ایران کے جسکی رسائی پہلے ہی کم ہوچکی ہے نیز ترکیہ یا قطر بھی اب سوائے محدود مالی امداد کے کوئی زیادہ تعاون کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ، چنانچہ بہتر راستہ تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ حماس اس موقع کو ضائع نہ ہونے دے۔ درویش کی نظر میں اس روڈ میپ کی سب سے خوبصورت شق 18 ہے جسکے مطابق ایک انٹرریلیجن ڈائیلاگ کا عمل شروع کیاجائیگا تاکہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی باہمی منافرتوں کو ختم کیاجائے اور ذہنی و فکری طور پر امن کے فوائد اجاگر کیے جاسکیں۔

تازہ ترین