سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
47 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ اور جسٹس صلاح الدین پنہور کا سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر الگ وجوہات تحریر کریں گے۔
سپریم کورٹ نے نظرِ ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظرِ ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ بینچ کے 2 ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں جبکہ 2 ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق مخصوص نشستوں کے 12 جولائی 2024ء کے اکثریتی فیصلے میں نئی ٹائم لائنز مقرر کی گئیں، نئی ٹائم لائنز انتخابی شیڈول، الیکشن ایکٹ کی دفعات اور آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے منافی تھیں، آئین اور قانون کے برخلاف ماضی سے مؤثر، نئی ٹائم لائنز مقننہ کا اختیار ہے عدالت کا نہیں، نئی ٹائم لائنز مقرر کر کے ہدایات کے ذریعے عدالت نے عدالتی اختیار کی حد سے تجاوز کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے دائرہ اختیار سے باہر جا کر اقدام کیا اور آئین کے آرٹیکل 175(2) کی خلاف ورزی کی، نئی ٹائم لائنز، ہدایات ناصرف آئینی اور قانونی دفعات کی خلاف ورزی تھے، اس میں آئین میں درج اختیارات کی علیحدگی کے اصول کو بھی پامال کیا گیا، عدالت نے اپنی واضح حدود سے آگے بڑھ کر قانون سازی کے میدان میں مداخلت کی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 12 جولائی 2024ء کا اکثریتی فیصلہ آئین میں دیے گئے جمہوری اقدار اور اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی تھا، مخصوص نشستوں پر انتخابات، بلاشبہ بالواسطہ اور بلاشبہ تناسبی نمائندگی کے اصول پر مبنی تھے، 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے میں عوام کی مرضی اور آئین کے حکم کو نظر انداز کیا گیا، 12 جولائی 2024ء کے اکثریتی فیصلے میں آئین قانون کو نظر انداز کیا گیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل اور اس کے چیئرمین کا کنڈکٹ قابلِ ستائش نہیں تھا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے 2 دن ابتدائی دلائل دیے اور کیس میں تاخیر کے لیے 2 درخواستیں دیں، مخصوص نشستوں کے کیس کو پریس نے بہت توجہ دی حالانکہ قانون بالکل واضح ہے اور کیس آسان تھا، سنی اتحاد کونسل نے نظرِ ثانی دائر ہی نہیں کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل تو یہ کہتے رہے کہ اس ہار میں بھی میری جیت ہے۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی نہ سپریم کورٹ، نہ پشاور ہائی کورٹ اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں فریق تھی، پی ٹی آئی کے جن امیدواروں کو آر او نے آزاد قرار دیا انہوں نے عدالت سے رجوع نہیں کیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہیں نہیں کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور کچھ امیدواروں نے پی ٹی آئی سے الیکشن لڑا۔
تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں نامور وکلاء نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، تعجب ہے کہ ان میں سے کسی وکیل نے آزاد قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا، پی ٹی آئی کے امیدواران نے غلط سمجھا کہ انہیں آزاد قرار دے دیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے امیدواران فیصلے کو غلط سمجھنے کے برابر کے ذمے دار ہیں، سپریم کورٹ مکمل انصاف 184 کے تحت کر سکتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مکمل انصاف کے نام پر اس فریق کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا جو مقدمے میں فریق ہی نہ ہو، مخصوص نشستوں کے مرکزی کیس میں پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا جس کا اختیار ہی نہیں تھا، اکثریتی ججز کا اقلیتی ججوں کو نکال کر خصوصی بینچ تشکیل دینا غیر قانونی ہے، آئین میں دی ہوئی ٹائم لائن تو پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کا اپنے تفصیلی فیصلے میں کہنا ہے کہ واضح ٹائم لائنز کو تبدیل کرنا اختیارات کی تقسیم کی تکون کے نظریے کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا کہ تشریح میں آئین کو ہی دوبارہ تحریر کر ڈالے، کسی جج کو قطعی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرے۔