• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرب اسرائیل تنازع کوئی آج تو پیدا نہیں ہوا یہ پون صدی کا قصہ ہے۔ دوسری جنگِ عظیم اختتام پذیر ہونے کے بعد برٹش ایمپائر نے 1917ء کے بالفورڈکلیئریشن کی مطابقت میں اپنے عہدوپیمان کی پاسداری کرتے ہوئے 14مئی 1948ء کو محض اسرائیلی ریاست ہی قائم نہیں کی بلکہ اسرائیل اور فلسطین کے ناموں سے دو ریاستیں اناؤنس کیں اور یہ سب یواین کی چھتری تلے کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کو جو کچھ ملا اسی کو یہود نے نعمت ایزدی گردانتے ہوئے محنت اور سچی لگن سے عظیم تر بنانے کی جدوجہد شروع کردی جبکہ فلسطینیوں نے اپنے لوگوں پر دھیان دینے یا ان کا مستقبل بہتر بنانے کا سوچنے کی بجائے اپنے دماغوں میں یہ بات بٹھا لی کہ ہم نے کسی بھی طرح اپنے ہمسائے کو نہیں چھوڑنا۔اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ 1948ء میں انہیں جو کچھ بخوشی مل رہا تھا آج وہ اس سے بھی کہیں کمتر پر آچکے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہیں پون صدی قبل اپنی جو الگ فلسطینی ریاست مل رہی تھی آج بالفعل انہی خطوں میں اس کے قیام کی کوئی ٹھوس صورت دکھائی نہیں دے رہی ۔‎

اسکی وجہ ہے عدم برداشت اور جنونیت، جو جتنا بڑا خودسراور جنونی ہوتا ہے ہماری مسلم سائیکی میں وہی ہمارا ہیرو یا محبوب لیڈر کہلاتا ہے جو عقل و شعور کی بات کرے وہ ہمارے روایتی مائنڈ سیٹ میں بکاؤ مال یا دشمن کا ایجنٹ قرار پاتا ہے۔ پی ایل او یا الفتح کے لیڈر یاسر عرفات کی مثال ہی ملاحظہ فرمالی جائے جب تک وہ یہودیوں پر خودکش حملے کرواتے رہےوہ ہم سب کے ہیرو اور جدوجہدِ آزادی کا معمار کہلائے حالانکہ ان سے وہ فلسطینی عوام کے مفاد میں کچھ حاصل حصول نہ کرسکے پھر جب مصری صدرانورسادات کی پیروی میں اُنہوں نے دہشت گردی کو خیرباد کہتے ہوئے مکالمے کی راہ اپنائی اضحاق رابن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو دکھی فلسطینی عوام کو ایک نوع کا استحکام نصیب ہوا اوسلوا کارڈ کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام ہوا لیکن کہا گیا کہ پی ایل او، یاسر عرفات اور محمود عباس بک گئے ہیں یہ فلسطینیوں کے غدار ہیں۔ یوں ایک نئی شدت پسند تنظیم حماس کا ظہور ہوا جسکا فاؤنڈر شیخ احمد یٰسین اخوان المسلمون کی تھاٹ کا حامل تھا۔ ان لوگوں نے مزاحمتی کارروائیوں کو نئے ہتھکنڈوںسے پیش کرنا شروع کیا، ساتھ ہی عرفات اور اس کی پی ایل او کو اسرائیلی ایجنٹ گردانتے ہوئے اس پر بھی حملے شروع کردیے ایک موقع پر تو یاسر عرفات قتل ہونے سے بمشکل بچے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطینی اتھارٹی دو ٹکڑوں میں بٹ گئی ۔‎یاسرعرفات پی ایل او یا فلسطینی اتھارٹی کو جو کچھ مل رہا تھا وہ اس شرط سے مشروط تھا کہ آپ لوگ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی سلامتی پر حملہ آور نہیں ہونگے۔ پی ایل او چیف نے یہ معاہدہ اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں فلسطینی صدر یا قائد کی حیثیت سے کیا تھا جسکی پاسداری تمام فلسطینیوں پر عائد ہوتی تھی لیکن حماس نے اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں سے منحرف ہو کرمزاحمت کا نیا طوفان اٹھادیا۔ 7اکتوبر 2023ء کو یومِ کپور کے روز حماس نے اسرائیل کے اندرگھس کر جوحملہ کیا اس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ ‎اب اسکی قیمت غزہ کے مظلوم فلسطینی عوام چکا رہے ہیں۔

غزہ کے عوام چکی کے دوپاٹوں میں پس رہے ہیں ایک طرف اسرائیل ہے اور دوسری طرف حماس۔حماس کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ غزہ کے عوام پر کیا بیت رہی ہے 7اکتوبر سے قبل اہل غزہ کو خود اسرائیل کی طرف سے کیا کیا سہولیات میسر تھیں ذرا اس کی تفصیلات ملاحظہ فرمالیں بجلی ،پانی ،خوراک سب کا بڑا حصہ اسرائیل کی طرف سے میسر تھا ،ہزاروں فلسطینی روزی کمانے روزانہ اسرائیل جاتےتھے۔ حماس اپنی کارروائیوںکیلئے عام فلسطینیوں کو اس طرح بطور ڈھال استعمال کرتی ہےکہ ہسپتالوں کے تہہ خانوں میں بارودخانوں سے لے کر اسکول کالجز، مساجد، چرچز اور دیگر پبلک مقامات تک کو وہ اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتی ہے، ایسے میں جب اسرائیلی ٹارگٹ حملے ہونگے تو کون مریں گے؟ فلسطینی عوام۔ ‎یہ ہے وہ پس منظر جس میں عرب ممالک کی معاونت سے امریکی صدرٹرمپ کی ٹیم نے خونریزی کو ختم کروانے کیلئے غزہ امن منصوبہ کے خدوخال تیار کیے جن پر مابعد آٹھ اسلامی عرب ممالک کی قیادتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاہو کو قائل کیا گیا۔شنیدہے کہ مصر، ترکی اور قطر کی قیادت دوحہ میں موجود حماس قیادت کو یہ سمجھارہی ہے کہ خون خرابے سے عام لوگوں کو جس طرح پہلے کچھ حاصل نہیں ہوا،آئندہ بھی کچھ نہیں ملے گا لہٰذا بہتر ہے کہ تم لوگ فلسطینی عوام کے دکھوں کا ادراک کرو ۔ یہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر تم لوگوں کی جاں بخشی بھی ہوسکتی ہے اور فلسطینی عوام کے دکھوں کا مداوا بھی۔ ‎امریکی پریذیڈنٹ ٹرمپ نے دباؤ ڈالتے ہوئے اسرائیلی پرائم منسٹر سے جس طرح اپنا امن روڈ میپ منوایا ہے حماس کے ہمدرد تینوں ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح حماس قیادت پر دباؤ ڈالتے ہوئے اس سے غزہ امن منصوبہ منوائیں بصورتِ دیگر جو تباہی آگے چل کر ہونی ہے اس کے اثرات فلسطینی عوام کے علاوہ پوری عرب یا مسلم ورلڈ تک پہنچیں گے۔‎ہمارے جو لوگ امریکی امن منصوبہ پر مختلف النوع اعتراضات اٹھارہے ہیں بالخصوص اس حوالے سے کہ اس میں دو ریاستی حل کی گارنٹی نہیں۔ ان پر یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ یہ امن منصوبہ بنیادی طور پر دوبرسوں سے جاری غزہ جنگ یا خونریزی کو رکوانے کیلئے ہے اور اسے اسی تناظر میں ملاحظہ کیاجائے اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ کے عزیز کو آگ لگی ہو تو آپ فوری طور پر اس آگ کو بجھانے کا اہتمام کرتے ہیں اس بھائی کو کیا ملنا ہے یا کون سی جگہ کس کی ہے؟ یہ بعد کی باتیں ہیں اس وقت بھڑکی ہوئی آگ کا اصل ایندھن غزہ کے بے بس فلسطینی عوام بن رہے ہیں اصل ایشو ان کا ہے۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ جب پورا مغرب، پوری مسلم اور عرب ورلڈ بالخصوص خود فلسطینی اتھارٹی اور اسکے صدر محمود عباس اس امن روڈمیپ کی حمایت کر رہے ہیں تو دوسرے کون ہوتے ہیں مخالفت کرنے والے۔

تازہ ترین