ستمبر 1948ء میں قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان میں سیاسی افراتفری کے سیلاب کا وہ بند ٹوٹ گیا جس کے آثار آزادی کے فوراً بعد ظاہر ہو گئے تھے۔ اگست 1947ء میں سرحد حکومت تحلیل کرنا غیر جمہوری تھا۔ اکتوبر 1947ء میں ریاست کشمیر پر قبائلی مجاہدین کا حملہ دور رس نتائج کا حامل تھا۔ 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ کے ریس کورس میدان اور پھر 24 مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستان کی قومی زبان کے حوالے سے قائداعظم کے اعلان سے ناخوشگوار ماحول پیدا ہوا تھا۔ اپریل 48ء میں وزیراعلیٰ سندھ ایوب کھوڑو کی حکومت توڑ دی گئی تھی۔ جون 48ء میں عبدالغفار خان گرفتار کیے گئے۔ 14 جون 1948ء کو قائداعظم نے سٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے حلف کی جو یاددہانی کرائی تھی وہ ایک خاص پس منظر سے خالی نہیں تھی۔ پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا گورنر جنرل کو سطح سمندر سے 8300 فٹ کی بلندی پر واقع زیارت بھیج کر آکسیجن سے محروم کرنے کے اسباب طبی نہیں، سیاسی تھے۔ قائد اعظم وفات پا گئے۔ لیاقت علی خان نے جنوری 49ء میں نواب ممدوٹ سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ چھین کر اپنے معتمد ممتاز دولتانہ کو سونپ دی۔ 12مارچ 49ء کو قرارداد مقاصد منظور ہوئی۔ قائداعظم آزادی صحافت کے مخالف قوانین پر دستخط سے انکار کر چکے تھے لیکن 8 اکتوبر 49ء کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حکومت مخالف اخبارات بند کرنے اور ناپسندیدہ صحافیوں کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل کر لیا گیا۔ ابراہیم جلیس نے ہفت روزہ ’قندیل‘میں ’پبلک سیفٹی ریزر‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ مضمون لکھا۔ ابراہیم جلیس گرفتار ہوئے۔ احمد بشیر ادارت سے فارغ ہوئے اور حمید نظامی کو معافی مانگنا پڑی۔ مارچ 1950ء میں پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کو مزید سخت کیا گیا۔ 8 مارچ 1951ء کو پنڈی سازش کیس سامنے آیا۔ 9 مئی 51ء کو ظہیر کاشمیری، احمد ندیم قاسمی، حسن عابدی اور حمید اختر سمیت متعدد صحافیوں کو اسی قانون کے تحت ایک برس تک نظربند رکھا گیا۔ اس نظربندی کی کہانی حمید اختر نے اپنی کتاب’کال کوٹھری‘ میں لکھی تھی۔ اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی جنوری 1978ء میں اشاعت معنی خیز تھی۔ موسم آیا تو نخل دار پہ میرؔ / سر منصور ہی کا بار آیا۔
حمید اختر ’کال کوٹھری‘ میں لکھتے ہیں کہ ملک کے ممتاز صحافیوں کو الگ الگ کوٹھریوں میں بند کر دیا گیا تو اچانک ایک ’چکی‘ سے ظہیر کاشمیری کی آواز بلند ہوئی۔ ’توفیق کس حال میں ہے؟‘۔ بندی خانے کے کسی تاریک کونے سے جواب آیا۔ ’شیر لوہے کے جال میں ہے‘۔ دیکھتے ہی دیکھتے جیل کا سیاسی گوشہ ان مکالموں سے گونجنے لگا۔ موجودہ سیاسی حالات میں یہ مکالمہ نئی معنویت اختیار کر گیا ہے۔ ملک کے حساس ترین ادارے کے سابق سربراہ کی گرفتاری کا اعلان 12اگست 2024ء کو ہوا تھا۔ اس زیر سماعت مقدمے پر رائے زنی صحافتی اصولوں کے خلاف ہے لیکن سیاسی صورتحال پر تبصرہ تو اس ذیل میں نہیں آتا۔ ملک کا سیاسی بندوبست بظاہر پرسکون ہے۔ مئی میں بھارت سے فوجی تصادم، سعودی عرب سے دفاعی معاہدے اور امریکا میں ہماری اعلیٰ قیادت کی پذیرائی نے جہاں امکانات کے نئے در کھولے، وہاں کئی سوال بھی اٹھائے ہیں۔ درویش کے محدود سیاسی مشاہدے کے مطابق شادی مرگ کا یہ سکوت زیر آب طوفانوں کی خبر دیتا ہے۔ کچھ تفصیل عرض ہے۔
ستمبر 1977ء میں بھٹو صاحب گرفتار ہوئے تو ملک آج ہی کی طرح دو قطبی سیاست سے دوچار تھا۔ عوام کی بڑی تعداد بھٹو کی حامی تھی لیکن بھٹو کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ مارشل لا حکومت کو بھٹو مخالف قوتوں کی حمایت حاصل تھی چنانچہ بندوق کے بل پر ملک پر قبضہ کرنے والوں کو بھٹو کی پھانسی کے لیے درکار رائے عامہ موجود تھی۔ اس مقدمے کی تفصیل کیا بیان کی جائے۔ سپریم کورٹ اس معاملے پر اپنی رائے دے چکی ہے۔ عدالتی کارروائی تو ایک ڈرامائی اسکرپٹ تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ جنہیں بھٹو صاحب کی رہائی سے اپنے اقتدار کو خطرہ لاحق تھا، انہیں سیاسی قیادت، صحافت اور عدالت میں مطلوبہ نفوذ حاصل تھا۔ چنانچہ دھوپ میں ننگے پاؤں چلنے والوں کی بھٹو حمایت کسی کام نہ آ سکی۔ جواب دہی سے بے نیاز مطلق العنان اقتدار نے 4اپریل 79ء کو اپنا فیصلہ نافذ کر دیا۔ ملک سناٹے کی اس چیخ میں ڈوب گیا جسے گوش سماعت نصیب نہیں ہوتا۔ آج کی صورتحال نصف صدی پہلے کے پاکستان سے مختلف ہے۔ میثاق جمہوریت کا تاوان تو بینظیر بھٹو نے اپنے لہو سے ادا کر دیا لیکن اس کے تسلسل میں اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی گئی۔ اس کے بعد عدلیہ تحریک، این آر او، کیری لوگر بل، میمو گیٹ، دھرنے، پانامہ سکینڈل اور ڈان لیکس کی مدد سے جو کھیل مرتب کیا گیا اس میں ایک مسیحا ہی تخلیق نہیں ہوا بلکہ ممکنہ سیاسی مخالفین کو اس حد تک بے توقیر کیا گیا کہ سیاسی عمل بے معنی ہو کر رہ گیا۔ صورت احوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا مستقبل کچھ بھی ہو، اس جماعت کی مخالف سیاسی قوتوں کو دشنام کی ایسی دلدل میں اتار دیا گیا ہے جہاں سے جمہوری مکالمے کی بحالی کا راستہ نہیں نکل رہا۔ یہ مخمصہ 9 مئی 2023ء کے ہنگامے سے طے ہوا اور نہ مئی 2025ء کے فوجی تصادم سے حل ہو سکا۔ جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے تو صرف دو برس کی ’محنت ‘ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ہم نے پندرہ برس اس کار لاحاصل میں گنوائے ہیں۔ معیشت برباد کی ہے اور سیاست کو مفلوج کیا ہے۔
استاد محترم نے دسمبر 2017ء کی ایک شام طالب علم کے سوال پر فرمایا تھا۔ ’یہ وقت بھی گزر جائے گا مگر اس کا ملبہ بہت زیادہ ہو گا ‘۔ آج تاریخ پوچھ رہی ہے کہ ’توفیق کس حال میں ہے؟‘