پاکستان کی معیشت ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں ہر فیصلہ آنے والے برسوں پر دور رس اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ پالیسیوں کے تسلسل سے خالی نظر آتی ہے۔ کبھی ایک حکومت صنعت کو سہارا دینے کیلئے کوئی پالیسی لاتی ہے تو اگلی حکومت اچانک اسے ختم کر دیتی ہے۔ سرمایہ کاری کا پہلا اصول پالیسی کا تسلسل اور اعتماد ہے، لیکن پاکستان میں یہی سب سے نایاب شے ہے۔ تازہ مثال حکومت کا اچانک کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ ہے، جس نے نہ صرف مقامی سرمایہ کاروں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار اور اوورسیز پاکستانی بھی شدید بے چینی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن (APMDA) کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے درست نشاندہی کی کہ حکومت نے استعمال شدہ گاڑیوں پر پہلے ہی دنیا کی بلند ترین شرحِ ٹیکس عائد کر رکھی ہے۔ کہیں 122 فیصد تو کہیں 475 فیصد تک کا ٹیکس! ایسے میں مزید 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی (RD) کا نفاذ کسی منطق کے دائرے میں نہیں آتا۔ یہ نہ صرف کاروبار کو تباہی کی طرف لے جائے گا بلکہ عام صارف کیلئےگاڑیاں ناقابلِ خرید بن جائیں گی۔
پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا سہارا اوورسیز پاکستانی ہیں۔ وہ ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بینکنگ چینلز کے ذریعے پاکستان بھیجتے ہیں۔ خاص طور پر (Transfer of Residence)، گفٹ اور بیگیج اسکیم کے تحت گاڑیاں لا کر بھی انہوں نے ملکی خزانے میں قیمتی ڈالرز جمع کرائے۔ مگر کمرشل امپورٹس کی اس نئی پالیسی نے براہِ راست انکے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب وہی اوورسیز پاکستانی، جنہیں حکومت‘‘معاشی مجاہد’’کہتی ہے، خود کو نظر انداز اور محروم محسوس کر رہے ہیں۔ ایچ ایم شہزاد نے بالکل بجا کہا کہ اس پالیسی کے پیچھے چند مخصوص اور بااثر اداروں کو نوازنے کی بو آ رہی ہے۔ کمرشل امپورٹس کی شرائط ایسی رکھی گئی ہیں جن سے صرف بڑے سرمایہ دار فائدہ اٹھا سکیں گے، جبکہ درمیانے اور چھوٹے درجے کے وہ کاروباری افراد جو دہائیوں سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے وابستہ ہیں، اس کاروبار سے باہر ہو جائیں گے۔ یہ رویہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہیں، وہاں اگر پالیسی چند ہاتھوں تک محدود کر دی جائے تو عام سرمایہ کار کا حوصلہ مزید ٹوٹے گا۔اس پالیسی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ پاکستان کے لاکھوں ڈالر بینکنگ چینلز کے ذریعے بیرون ملک چلے جائیں گے۔ کمرشل امپورٹس کا طریقہ کار ایسا بنایا گیا ہے کہ درآمد شدہ گاڑیوں کے بدلے بڑی رقوم ملک سے باہر منتقل ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان زرمبادلہ کے بحران سے دوچار ہے، حکومت خود کیوں ایسا دروازہ کھول رہی ہے جو ملک کے مالی ذخائر کو مزید کمزور کرے گا؟ سرمایہ کاروں کیلئےسب سے بڑی رکاوٹ حکومت کی پالیسیوں میں تسلسل کی کمی ہے۔ کبھی ایک اجازت، کبھی اچانک پابندی، اور کبھی راتوں رات نیا نوٹیفکیشن۔ یہ عمل غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان کو‘‘Unpredictable Market’’بنا دیتا ہے۔ سرمایہ کار ہمیشہ وہاں جاتا ہے جہاں قانون اور پالیسی واضح اور مستقل ہوں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کبھی پائیدار بنیادوں پر نہیں بڑھ سکے گی۔حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اوورسیز پاکستانی صرف زرمبادلہ نہیں لاتے بلکہ وہ پاکستان کے حقیقی سفیر ہیں۔ وہ جب اپنی محنت کی کمائی وطن بھیجتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک جذباتی رشتہ بھی ہوتا ہے۔ ان کی محرومی نہ صرف معیشت کیلئے خطرناک ہے بلکہ پاکستان کی عالمی ساکھ پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر اس پالیسی پر مکالمہ کرے اور آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے۔ ایسا نہیں کہ ایک طرف چند بڑے سرمایہ کار خوش ہوں اور دوسری طرف لاکھوں اوورسیز پاکستانی اور ہزاروں مقامی کاروباری طبقہ نقصان اٹھائے۔ ایک متوازن پالیسی بنائی جائے جس میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کو منطقی سطح پر لایا جائے۔
اوورسیز پاکستانیوں کیلئے TR، گفٹ اور بیگیج اسکیم کو مزید سہل بنایا جائے، درمیانے طبقے کے کاروباری افراد کو کمرشل امپورٹ میں حصہ لینے کا حق دیا جائے اور مارکیٹ میں اجارہ داری قائم نہ ہونے دی جائے۔پاکستان اس وقت جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس میں ہر پالیسی کو بہت سوچ سمجھ کر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ کمرشل امپورٹس کی موجودہ شکل میں یہ پالیسی نہ عوام کیلئے فائدہ مند ہے نہ ہی اوورسیز پاکستانیوں کیلئے، بلکہ یہ سرمایہ کاری کے ماحول کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ وزیراعظم کو ذاتی طور پر اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے اور فوری طور پر ایسا ڈائیلاگ شروع کرنا چاہئے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کو مطمئن کرے۔