(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے علاوہ لاہور کے دیہات میں تنبو قناتیں لگا کر بھی منڈوا دکھایا جاتا تھا اور جیسے لاہور میں آج بھی ایک تھیٹر گائوں ہے ڈیفنس کے پاس ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس گائوں میں پہلا تھیٹر بنا تھا اسلئے اس گائوں کا نام ہی تھیٹر گائوں پڑ گیا۔اسی طرح لاہور میں جب سینما گھر بہت کم تھے تو تنبو قناتوں میں ا سکرین لگا کر فلم دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔بار لیکس ایک کمپنی تھی(ہال روڈ پر) جو لوگوں کو ان کے گھر پر فلم دکھانے کاا ہتمام کیاکرتی تھی۔لوگ شادیو ں اور سالگرہ کی تقریبات میں انہیں بلاتےتھے اور اس کے علاوہ اپنے گھر کی دعوتوں میں بھی انہیں بلاتے تھے اوربار لیکس مووی والے ایک چھوٹا سا پروجیکٹر لا کر فلم دکھایاکرتے تھے۔ مارکیٹ میں اس زمانے میں چھوٹے چھوٹے پروجیکٹر بھی آئے تھےکچھ آواز والے کچھ آواز کے بغیر، لوگ انہیں گھروں میں لا کر فلم وغیرہ دیکھ لیا کرتے تھے۔وہ بڑا خوبصورت زمانہ تھا ۔ہمیں یاد ہے کہ ہماری پھپھو کے ہاں جو کہ بہت مشہور اولڈ محمد دین ٹینٹ والے تھے ان کے گھربار لیکس مووی پروجیکٹر لاتے تھے اور اس پر فلم دکھائی جاتی تھی۔ شائقین کو فلم دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ فلم کی ٹکٹیں بلیک میں خریدا کرتے تھے۔لیڈیز کی کھڑکی ہمیشہ علیحدہ ہوتی تھی اور ایک باکس ہوتا تھا جس میں فیملی بیٹھ کر فلم دیکھتی تھی اس کی ٹکٹ الگ ہوتی تھی۔امیر لوگ باکس لیتے تھے۔الفلاح سینما بہت مشہور تھا۔لاہور کا سب سے خوبصورت سینما الفلاح اور اوریگا تھا۔ الفلاح کے باکس بہت خوبصورت تھے اور پنک ویلوٹ جس پر بڑے خوبصورت پھول بنے ہوئے تھے ۔ اسی طرح الحمرا لاہور کا پہلا سینما تھا جس کی ڈبل گیلری تھی ۔بوڑھ والاچوک پر ریکس سینما تھا جو بڑا خوبصورت تھا ،گڑھی شاہو، ریلوے اسٹیشن، میکلورروڈ، ایمرسن روڈ کی فیملیاں ریکس سینما میں فلمیں دیکھنے آیا کرتی تھیں ۔اب وہاں بسوں کے اڈے بن گئے ہیں ۔یہ دونوں اپنے دور کے خوبصورت سینما تھے۔ہمیں یاد ہے کہ ان سینما میں اندر جاتے ہی ایک خوبصورت خوشبو آیا کرتی تھی ،بہت اچھا میوزک بجتا تھا ۔ اسکرین سے آٹومیٹک پردہ اٹھنے کا رواج بھی انہی سینما میں شروع ہوا۔دو بڑے پروجیکٹر لگے ہوتے تھے ان میں شدید گرمی ہوتی تھی ہائی پاور بلب استعمال ہوتے تھے جس سے ان میں شدید گرمی ہوتی تھی ۔ٹکٹوں کے مختلف ریٹس تھے ہمارے زمانے میں گیلری کا ٹکٹ تین روپے کا تھا اور جوا سکرین کےسامنے بیٹھتے تھےسب سے کم قیمت ٹکٹ بارہ آنے تھا ۔جب بارہ آنے والے شور کرتے تھے تو گیلری والے انہیں کہتے تھے کہ بارہ آنے والو باز آجائو اوروہ اسکرین کے آگے ڈانس بھی کرتے تھے اور کرسیاں وغیرہ بھی توڑ جایا کرتے تھے جب فلم نہیں چلتی تھی یاا ن کی مرضی کی فلم نہیں دکھائی جاتی تھی ۔ اس کے علاو ریگل سینما واحد سینما تھا جس کی گیلری نہیں تھی اور ایک ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی وہاں انگریزی فلم دکھائی جاتی تھی اور ایک زمانے میں یہ بھی کہا جاتا تھا ریگل سینمامیںکچھ عرصہ بغیر سوٹ یا پینٹ شرٹ کے جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی ۔نشاط سینما بہت پرانا تھا۔ میکلورڈروڈ پر جو سینما تھا اس میں نشاط،کیپٹل، پیرامائونٹ ،لیٹسٹ،ریوارلی سینما تھا۔ریوارلی سینما میں ایک فلم لگی تھی ’’جی دار‘‘۔فلم لگنے کے دوران اس کی گیلری گر گئی اور اس فلم کے بارے میں مشہور تھا کہ اس فلم کے دوران اس کا فلم ساز اورڈائریکٹر مر گیا تھا۔اسی طرح قیصر سینما تھا جس کو مون لائٹ بھی کہتے تھے وہ سینما بہت ہی فضول اور خراب فلموں کیلئے مشہور تھا ۔ اس سینما کے بالکل سامنے لاہور کا آخری مائیل سٹون تھا جس کی میں نے تصاویر بھی بنائی تھیں اس پر لکھا تھا کہ ضلع کچہری،دہلی کتنی دور ہے اور بھی شہروں کا لکھا تھا وہ بہت زبردست اسٹون تھا جوچوری کر لیا گیا ،قیصر سینما (جسے مون لا ئٹ بھی کہتے تھے) اس کا اندرونی ماحول بھی بہت گندا تھا بدبو دار اور انتہائی گندا۔اسی طرح ریکس سینما تھا جومون لائٹ کے سامنے تھا وہ بھی اب نہیں رہا ۔ہمارے دیکھتے دیکھتے کئی سینما گرگئے یا گرا دیئے گئے ۔انگولا ،کیپری،صنم سینما،گلیکسی پلازہ بھی ختم ہو گیا ۔رتن سینما ،نشاط،میٹروپول ۔شام کو سب سے زیادہ تانگے میکلورروڈ اور ایبٹ روڈ پر نظر آتے تھے ۔رات کو آخری شو 12 بجے ختم ہوتا تھا ۔تانگوں کی قطار لگی ہوتی تھی ۔تانگے والے سب سے زیادہ کاروبار سینما گھروں سے کیا کرتے تھے۔پھر پیلی اور کالی ٹیکسیوں کا زمانہ آ گیااس کے بعدرکشےآگئے ۔لاہور کا خوبصورت کلچرتھا جو تباہ ہو گیا۔فلموں کی پبلسٹی کیلئے تانگوںکا بڑا استعمال ہوتا تھا۔تانگوں کی بیک پر بڑا سا ایک پوسٹر لگا دیا جاتا تھا اور ڈھول والا بھی ہوتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تانگے اسکول سے بچوںکو لانے کیلئے بھی استعمال ہوتے تھے ۔بہت سارے تانگے والے پوسٹر نہیں اتارتے تھے اور بچے اس میں بیٹھے ہوتے تھے۔تانگے کا استعمال لاہور میں بہت کیا جاتا تھا۔ایک زمانے میں اسلامیہ کالج کوپر روڈ کی طالبات کی اکثریت تانگوں پر آتی تھی ۔وہاں تانگوں کی لائن لگی ہوتی تھی اور اپوا کالج تک بھی تانگے جایا کرتے تھے اورلاہور کالج کے باہر بھی تانگے ہوتے تھے ۔اینگلو انڈین سٹوڈنٹس کنئیرڈ کالج تانگوں پر جاتی تھیں اور ا سکرٹ پہنتی تھیں۔وہ لاہور بہت خوبصورت تھا ۔کوئین میری کالج کے سامنے بھی تانگے ہوتے تھے ۔لاہور میں سینٹرل ماڈل اسکول،مسلم ماڈل اسکول اور کئی اسکولوں میں بچوںکو لانے لیجانے کیلئے تانگوں کا استعمال ہوتا تھا۔تانگے کا ایک کلچر تھا اور امیر لوگ تانگے اپنے گھر میں بھی رکھا کرتے تھے جو شاہی تانگہ ہوتا تھا ہیرا منڈی میں باقاعدہ ترنم سینما کے سامنے تانگوں کا بہت بڑا اڈا تھا۔وہاں پیلے رنگ کے پردے والے تانگے بھی ہوتے تھے، کمیٹی کےتانگے ہوتے تھے جسے باقاعدہ نمبر پلیٹ بھی لگتی تھی اور کچھ تانگے پرائیویٹ بھی ہوتے تھے جو خوبصورت رنگوں کے ہوتے تھے جس کو امیر لوگ کرائے پرحاصل کیا کرتے تھے۔کوئی اس بات پر یقین نہیں کرے گا کہ لارنس گیٹ جو مال روڈ پر ہے اور قائد اعظم گیلری کے پاس ہےوہاں تک تانگے آیا کرتے تھے اور کوئی کوئی شوقین یا بہت ہمت والافورٹریس بھی تانگے میں آتا تھا تب کوئی چیک پوسٹیںنہیں تھیں۔تب فورٹریس اسٹیڈیم بھی اس طرح کا نہیں تھا۔(جاری ہے)