• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھار زندگی میں ایک آدھ ایسے واقعے سے ہمیں دو چار ہونا پڑتا ہے۔ جو واقعہ ہمیں خواہ مخواہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پچھلے دنوں ہندوستان اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان دبئی میں ایشیا کپ فائنل کھیلا گیا تھا۔ ہندوستان کی ٹیم ہر لحاظ سے اچھی ٹیم تھی۔ فائنل کھیلنے کیلئے ہندوستانی ٹیم بھرپور تیاری کر کے آئی تھی۔ وہ لوگ میچ جیت گئے۔ لگاتار تیسری مرتبہ پاکستان کرکٹ ٹیم ہندوستان کی ٹیم سے ہار گئی تھی۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔ آپ جیت جاتے ہیں یا پھر ہار جاتے ہیں۔ ہار نے کے بھی آداب ہوتے ہیں جیتنے والی ٹیم کو پتہ لگ جانا چاہئے کہ ہارنے والی ٹیم کس قدر تگڑی اور ہر لحاظ سے ہم سرتھی۔ ہارنے والی ٹیم نے آخری گیند تک میچ جیتنے کیلئے جان لڑا دی تھی۔ مگر ہم، میرا مطلب ہے ہماری کرکٹ ٹیم بری طرح سے ہارگئی۔ میچ ہارنے کے بعد کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنےلگی۔ میچ جیتنے والی ٹیم نے ہم سے ہاتھ نہیں ملایا۔ ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ہارنے والی ٹیم کی نشان دہی کرتے ہوئے کسی نے کھیل کے اچھے تجزیہ کاروں کی طرح  یہ نہیں کہا کہ ہماری ٹیم کمزور تھی۔ ہماری ٹیم ذہنی طور پر مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ ہماری ٹیم ہار گئی۔

دنیا کی کوئی بھی اچھی ٹیم اس نوعیت کا رونا نہیں روتی کہ میچ جیتنے والی ٹیم نے ہم سے ہاتھ نہیں ملایا۔ ہمیں  اہمیت نہیں دی۔ ہمیں نظر انداز کردیا۔ اچھی ہارنے والی ٹیمیں اپنی ہار سے سبق سیکھنا چاہتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں  اور کوتاہیوں کا کھوج لگانا چاہتی ہیں۔ مجموعی طور پر اپنے ہار نے کے اسباب تلاش کرتی ہیں کھسیانی بلی بن کر کھمبا نہیں نوچتیں۔ اس طرح آپ دنیا بھر کی ٹیموں کے ہمراہ گردن اٹھا کر نہیں چل سکتے۔ ہاں، اگر آپ دنیا کی کسی بھی ٹیم سے ٹکر کھانے کا جوہر رکھتے ہیں۔ تو پھر میچ ہارنے کے باوجود آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائیگا۔ صدیوں تک آپ کے عزم اور ارادے کو سراہا جائیگا۔ مگر آپ بُری طرح سے ہارے ۔آپ سے یہ تک نہ ہوسکا کہ آپ اپنی کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے۔ آپ نے اپنی تمام تر توانائی اس بات پر لگادی کہ جیتنے والی ٹیم نے ہم سے ہاتھ نہیں ملایا۔ آپ نے ایک لمحہ کیلئے نہیں سوچا کہ آپ بار بار کیوں ہار تے رہے۔

ایشیا کپ فائنل جیتنے کے بعد ہندوستان کی ٹیم نے بڑی بھونڈی حرکت کرڈالی. دنیا بھر میں ان کی رسوائی ہوئی۔ انکو اگر ایشین کرکٹ کونسل کے چیئر مین محسن نقوی کی ذات سے کوئی اختلاف تھا تو پھر وہ ٹورنا منٹ میں حصہ نہ لیتے۔ یہ بات کسی کے پلے نہیں پڑی کہ میچ جیتنے کے بعد ٹیم نے محسن نقوی کے ہاتھوں ٹرافی لینے سے انکار کردیا۔ اپنی حرکت سے ہندوستانی ٹیم نے کرکٹ کی حرمت (اسپرٹ) روح فنا کردی۔ کرکٹ کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا ہے کہ جو شخص آپ کے ٹورنا منٹ میں لمحہ بہ لمحہ آپ کیساتھ تھا، ٹورنامنٹ کا روح رواں تھا، اس شخص سے ٹرافی لینے سےآپ نے انکار کردیا۔ آپ کو روز اول سے ٹورنا نٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کردینا چاہئے تھا۔ یہ ڈرامہ رچانےکی کیا ضرورت تھی؟ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا محسن نقوی کے ہوتے ہوئے ہندوستانی ٹیم ٹورنا منٹ میں کھیلنے سے انکار کردیتی تو بات ایرے غیرے نتھو خیرے کی سمجھ میں آسکتی تھی۔ ٹورنا منٹ کے اختتام پر ہندوستانی ٹیم کے منفی ردِّ عمل کو سمجھنا مشکل ہے۔ فقیر کو ہندوستانی ٹیم کی نازیبا حرکت کی جڑیں ہندوستان کی سیاست میں دکھائی دیتی ہیں یہ طے ہے کہ سیاست اور کھیل ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

ہندوستانی ٹیم کے توہین آمیز رویے کا مکمل فائدہ، ثمر پاکستان کرکٹ بورڈ نے اٹھایا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ کرکٹ بورڈ کو تلخ پوچھ گچھ سے چھٹکارا ہندوستانی ٹیم کے احمقانہ رویے نے دلوایا۔ اگر ہندوستانی ٹیم گری ہوئی حرکت نہ کرتی تو پاکستانی قوم کرکٹ بورڈ کو آڑے ہاتھوں لیتی۔ چیئرمین سے لیکر بورڈ کے چپراسی تک سب سے پوچھ گچھ ہوتی۔ غیر ملکی کوچ کو بھی نجات نہ ملتی۔ ایک چھوٹے سے کالم میں میں بورڈ کے پچھتر سالہ رکارڈ کا کچا چٹھا نہیں کھول سکتا۔ موجودہ بورڈ کے عقلمندوں نے دو میچ جتوا نے والے کھلاڑیوں کو ٹیم سے نکال کر کرکٹ سے عشق کرنیوالی قوم کو پشیمان کردیا ہے۔ کرکٹ بورڈ نےجو دھول چاٹی اور کرکٹ سے پیار کرنیوالوں کو دھول چٹوادی۔ میں بابراعظم اور محمد رضوان کی بات کر رہا ہوں۔ بابر کی بیٹنگ ٹیکنیک کا موازنہ آپ سنیل گواسکر، سچن ٹنڈولکر اور ویرات کوہلی سے کرتے تھے۔ اس ٹاپ کے کھلاڑی کو آپ نے ذاتی بغض اور ضد کی بنا پر ٹیم سے نکال دیا۔ دو چار ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو آپ نے جو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے، پہلے انکے گندے ذہن کو دیرینہ دشمنی اور انا سے پاک کریں اسکے بعد اپنے من پسندوں کو میانداد جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے نکالنے کا اختیار دیں۔ ساٹھ پینسٹھ برس پہلے آپ نے حنیف محمد کو ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا تھا۔ حنیف سے کہا گیا تھا وہ صادق محمد کو تب تک ٹیم سے باہر رکھیں گے جب تک حنیف محمد ریٹائرمنٹ نہیں لیتے۔ دراصل حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد کا ایک ٹیم میں ایک ساتھ کھیلنا بورڈ کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ آج کے کرکٹ بورڈ نے بابر اور رضوان کو ٹیم سے نکال کر نتیجہ خود دیکھ لیا ہے۔

ہے بورڈ کے ارکان میں اتنی ہمت کہ قوم سے معافی مانگیں اور مستعفی ہو جائیں؟ ہندوستانی ٹیم کے بیہودہ رویئے کے پیچھے چھپنے والے بورڈ ارکان کو سامنے لائیں۔

تازہ ترین