• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تو ایک ہی طرح کے خاندان ہوا کرتے تھے، باپ، بیٹے اور پوتے سب اس خاندان کا حصہ ہوا کرتے تھے، سب ایک جگہ اکٹھے رہتے تھے، سب کے دکھ اور خوشیاں سانجھی ہوتی تھیں، سب کی دوستیاں دشمنیاں مشترکہ ہوتی تھیں، اور سب کے وسائل بھی مشترکہ تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد ایک نئے طرز کے خاندانی نظام نے راہ پائی جس میں مرد عورت کا صرف ایک جوڑا اور انکے بچے شامل ہوتے ہیں، اس نئے خاندانی نظام کیلئے نیوکلئیر فیملی کی ترکیب ایجاد کی گئی۔ اور پرانے طرزِ خاندان کیلئے مشترکہ خاندانی نظام کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔


یہ جو وفاقی ریاستیں ہوتی ہیں ان کی شکل مشترکہ خاندانی نظام سے حیرت انگیز مماثلت رکھتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں وقت کیساتھ ساتھ اختیارات کی تقسیم کے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، اہلِ خانہ کے درمیان معاشی عدم توازن پیدا ہونے لگتا ہے، کس کے بچے زیادہ ہیں، کس کی ضروریات زیادہ ہیں، کون زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے اور بل میں کم حصہ ڈالتا ہے، کون خاندان کی اخلاقی و مذہبی قدروں سے روگردانی کر رہا ہے، کون بڑوں کا لاڈلا ہے، کسے رعائتیں مل رہی ہیں، کون خود سر ہے، حتیٰ کہ خداداد صلاحیتوں پر بھی شکایتیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔

دنیا بھر کی ریاستیں اسی نوع کے قضیوں سے دوچار ہوا کرتی ہیں، مگر وفاقی ریاستوں میں ان معاملات کی نوعیت شدید نظر آتی ہے، امریکا سے ہندوستان تک اور نائجیریا سے کینیڈا تک، ہر وفاقی نظام مسلسل اس نوع کے مسائل سے نبرداآزما رہتا ہے۔ مرکز اور صوبوں کے تعلقات جوہری طور پر ساس بہو کے روایتی رشتے جیسے محسوس ہوتے ہیں، دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی فیڈریشن نہیں جہاں مرکز اور سب صوبوں کے تعلقات مسلسل خوش گوار رہے ہوں، یا صوبوں کے باہمی تعلقات پیہم مثالی رہے ہوں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی وفاقی ریاستوں اور اس کی اکائیوں کے درمیان سول وارز ہو چکی ہیں، امریکا کی سول وار 1865- 1861ء سے لیکر نائجیریا کی سول وار 1970-1967ءتک، ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جن میں اختیارات و وسائل کی تقسیم، نسلی ولسانی قضیے، ترقی میں عدم توازن، صوبائی حقوق اور قومی ہم آہنگی کی بحثیں فریقین کے ہتھیار اٹھانے پر منتج ہوئیں۔ دنیا کی ہر فیڈریشن اپنے وجود کی بقا چاہتی ہے اور اس کیلئے آخری حد تک چلی جاتی ہے، جبکہ دنیا بھر میں بہت سی وفاقی اکائیاں علیحدگی کی خواہش رکھتی ہیں اور اس کیلئے مقدور بھر کوشاں بھی رہتی ہیں۔ کینیڈا غالباً دنیا کی واحد وفاقی ریاست ہے جو اپنے صوبے کیوبک میں اب تک دو ریفرنڈم کروا کے وہاں کے فرانسیسی بولنے والے شہریوں کو یہ حق دے چکی ہے کہ وہ اگر کینیڈا سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ہو جائیں۔ ورنہ علیحدگی کی بات پر تلواریں بے نیام ہو جاتی ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں جب کوئی شخص علیحدہ ہونے کی بات کرتا تھا وہ یک دم ولن کے درجے پر فائز ہو جاتا تھا جو خاندان کو توڑنا چاہتا تھا، جو ایک خطرناک روایت کی بنا ڈالنا چاہتا تھا، وفاقی ریاست بھی علیحدگی کا نعرہ لگانے والوں کو اسی نظر سے دیکھتی ہے۔

وفاقِ پاکستان میں بھی یہ مسائل ابتدا سے رہے ہیں۔ صوبے نسل، زبان، شناخت، وسائل، معدنی وسائل، اور اختیارات کی تقسیم پر مرکز سے شاکی رہے ہیں۔ ہماری گیس ہمیں نہیں ملی، ہماری پٹ سن کا پیسہ چوری ہو گیا، ٹیکس ہم دیتے ہیں اور سڑکیں کسی اور کی بن رہی ہیں، ہم اردو کیوں پڑھیں کیوں بولیں۔ سب سے بڑا اعتراض جو صوبوں کی طرف سے آغاز سے ہی کیا جاتا رہا وہ سادہ بھی تھا اور سچا بھی۔ اعتراض یہ تھا کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے دیے جائیں، ہمیں ایوانوں میں نمائندگی دی جائے، ہمیں اپنے نمائندے چننے کا اختیار دیا جائے، ہمیں اپنی قانون سازی اور انتظامی مشینری کا اختیار دیا جائے۔ وفاق پاکستان میں یہ حق آمریت کے طویل ادوار میں تو یک سر معطل رہا، اور ہمارے نیم جمہوری ادوار بھی کوئی روشن مثال قائم نہیں کر سکے۔ وفاقی نظام بہت حساس سیاسی نظام سمجھا جاتا ہے، دنیا کے تمام کام یاب وفاقی نظام (امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، ہندوستان، جرمنی، سوئزرلینڈ) جمہوری سیاسی نظام کے تحت ہی چل پائے ہیں۔ ورنہ نائجیریا جیسے وفاق میں تو آج بھی باکو حرام سمیت کئی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یاد رہے کہ نائجیریا نے 1999ء کے بعد سے براہِ راست فوجی حکومت نہیں دیکھی، جب کہ ہمارے ہاں اسی سال ایک کمانڈو نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر آٹھ سالہ آمریت کی بنیاد رکھی تھی۔ پاکستان کے تمام صوبوں کو آزادی کے کچھ سال بعد ہی صوبہ پنجاب سے شکایت پیدا ہو گئی کہ وہ ان کے سیاسی، معاشی اور قانونی حقوق غصب کر رہا ہے۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے اور زرعی اعتبار سے روزِ اول سے نئے وفاق میں ممتاز مقام رکھتا تھا، سو کچھ فطری رشک کی گنجائش تو ابتدا سے موجود تھی، مگر ایک عنصر نے یہ تاثر ابھارنے میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا، اور وہ عنصر تھا پاکستانی فوج کی ہیئت جس میں پنجابیوں کی کثیر تعداد برطانوی راج کے زمانے سے شامل رہی تھی۔ آمریت کی چیرہ دستیوں سے وسائل پر تصرف تک، چھوٹے صوبوں کو جو جو شکایت پیدا ہوئی اسے’’پنجابیوں‘‘ کے کھاتے ڈال دیا گیا، کوتاہ نظر علاقائی سیاستدانوں نے بھی پنجاب سے نفرت کو اپنی سیاست کی اساس بنایا، بنگال سے بلوچستان تک یہی کھیل کھیلا گیا۔ یہ سارا قصہ ہمیں پنجاب اور پی پی پی کی حالیہ شمشیر زنی سے یاد آیا۔ہم اصولی طور پر شہریوں کو لسانی، نسلی، مذہبی اور صوبائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کو گمراہی سمجھتے ہیں، ہمارے نزدیک شہری اشرافیہ اور عوام میں بٹے ہوتے ہیں، ہیوز اور ہیو ناٹس، خواہ وہ کسی بھی انتظامی اکائی کا حصہ ہوں۔ یہی اصل مسئلہ ہے، اس کے سوا ہم کسی جنگ کا حصہ بننا پسند نہیں کریں گے، جیسے مشترکہ خاندانی نظام میں سیانے مرد ساس بہو کی جنگ میں حصہ لینا پسند نہیں کرتے۔

تازہ ترین