اقبال ؒ کا مشہور شعر ہے
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاںپیدا
اسی طرح انہوں نے ایک جگہ کہہ رکھا ہے کہ
جو عالم ايجاد ميں ہے صاحب ايجاد
ہر دور ميں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
بہت پرانی بات ہے درویش نے بابا جی اشفاق صاحب اور اختر حسین شیخ صاحب سے پوچھا کہ عصرِ حاضر کی جتنی بھی عظیم الشان ایجادات ہیں جن سے آج پوری انسانیت مستفید ہو رہی ہے یہ ساری کی ساری مغرب اور اس کے سائنسدانوں کی مرہونِ منت ہیں، کیا وجہ ہے کہ پوری چودہ صدیوں میںہمارے آباؤاجدادنے اپنے دور عروج میں بھی ایسی کوئی ایک قابلِ فخر ایجاد نہیں کی ، جس سے آج کی دنیا کو راحت مل رہی ہو؟۔شیخ صاحب تو فوری سرنڈر ہو گئے جبکہ بابا جی اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے کچھ اندلس (اسپین) کی سنانے لگے عرض کی بابا جی جانے دیں جنکے نام آپ لینا چاہ رہے ہیں انہیں تو ہم نے کافر سے بھی بڑھ کر راندہ درگاہ قرار دے دیا تھا، ان کا تعارف بھی آپ تک مغرب کے ذریعے پہنچا ہے۔آپ کسی ٹھوس چیز کی نشاندہی کریں جو ہمارے سماج سے پھوٹی ہو اور براہِ کرم اس امر کی وضاحت بھی فرما دیں کہ اس ناکامی و محرومی کی وجہ کیا ہے؟اس پر بڑی بحث ہوئی مگر جس امر پر ہمارا اتفاق ہوا وہ یہی تھا کہ ہمارے معاشرے میں آزادیء اظہار کا فقدان ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ آج درویش سوچتاہے کہ یہ فقدان جتنا ماضی میں تھا”الحمدللہ“ اتنا ہی آج بھی ہے ۔ہم نے ڈیڑھ ہزار سال تک اگر کسی چیز پر پختگی کے ساتھ ایکا کیے رکھا ہے تو وہ ”جہالت“ ہے جو حلیے اور لبادے بدل بدل کر جلوہ افروز ہوتی رہی۔بلاشبہ اس کا بڑا کریڈٹ اپنے اپنے ادوار کے ہمارےحکمرانوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ہمیشہ ریاست و سلطنت اور دین ومذہب کا مخالف قرار دیتے ہوئے محض قابلِ نفرت ہی نہیں ٹھہرایا بلکہ موقع ملنے پر کچلنے سے بھی دریغ نہ کیا لیکن ذرا ٹھہریے! اس جرم میں وہ حکمران تنہا نہیں تھے بعض مذہبی علماء بھی اس ’’کارِنیک ‘‘میں کبھی پیچھے نہیں رہے جنہوں نے ہر نئی سوچ اور تازہ فکر کو بدعت و گمراہی قرار دیتے ہوئے حریتِ فکر اور آزادی اظہار کے نام لیواؤںکیلئے مرتدین جیسی شدید اصطلاحات استعمال کرتے ہوئےانہیں قابلِ گردن زدنی قرار دیے رکھا۔ جو اپنے خطبات میں عامتہ المسلمین کو ازبر کراتے رہے کہ’’السلطان المسلم ظل اللہ فی الارض‘‘ آگے کے الفاظ اس نوع کے ہیں کہ جس نے سلطان کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے سلطان کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی،جس نے سلطان کو عزت دی اس نے اللہ کو عزت دی اور جس نے سلطان کی اہانت کی اُس نے اللہ کی اہانت کی۔“ ٹھیک یہ الفاظ بہ زبان عربی آج بھی عثمانی خلفاء یا ترک سلاطین کے محلات پر کندہ ہیں درویش استنبول کی یاترا میں ان کی تصاویر بنا کر لایا ہے مدعا کلام یہ ہے کہ جب ہم اپنے پورے سماج کا شکنجہ اس قدر کس کر رکھیں گے تو حریتِ فکر اور آزادی اظہار جیسی اقدار کہاں سے پھوٹیں گی؟ اس نوع کی اگر کوئی معتزلہ جیسی تحریکیں اٹھیں بھی تو ان کے عقلی و منطقی استدلال کو عسکری قوت سے کچل کر رکھ دیا گیا ، اگر المامون جیسے کسی حکمران نے شعور کی بات کرنی بھی چاہی ہے تو روایتی سماج میں پھیلائی اور چھائی جہالت نے بظاہر علم کا لبادہ اوڑھ کر اس کےخلاف ایکا کر لیا ہے۔ درویش نے اپنے پچھلے کالم ”آزادی اظہار اور ڈاکٹر جاوید اقبال ؒ“ میں اس موضوع کو چھیڑا تو کئی احباب نے فرمائش کی کہ اس پر مزید تحریر کرتے ہوئے واضح کیجیے کہ آزادی اظہار کے فقدان نے ہماری سوسائٹی کو کیا نقصان پہنچایا ہے؟ان دوستوں کو جواب ہے کہ کوئی نقصان سا نقصان ہوا ہے، بس یہ کہیے کہ پیچھے بچا ہی کیا ہے؟۔ہم نے اپنے دورِ زوال میں دنیا کو کیا دینا تھا ہم تو اپنے دورِ عروج میں بھی کچھ دینے سے قاصر رہے کیونکہ ہماری سلطنتوں کی بنیادیں کسی علمی فلسفے پر استوار نہیں تھیں بلکہ عسکری قوت پر انحصار کرتی رہیں اورجن خطوں پر قابض ہوئیں وہاں بھی جبر کے نت نئے پیمانے روشناس کرائے باقی یکطرفہ خوبیاں تلاش کرنی ہوں تو وہ کسی گناہگار ترین فرد میں بھی ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ حریتِ فکر اور آزادی اظہار کے فقدان کا یہ نقصان کیا کم ہے کہ ہمارے روایتی معاشرے آج بھی بد ترین سماجی گھٹن کا شکار ہیں۔ ہم ویسے تومغرب اور مغربی تہذیب پر لعنتیں بھیجیں گے مگر موقع ملنے پر مغرب میں جا بسنے کیلئے سب سے آگے ہونگے، ہمارے کتنے لوگ ہیں جو ہر سال براستہ ترکی غیر قانونی طور پرکنٹینروں اور کشتیوں کے ذریعے یونان داخل ہونے کی کاوش میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں مگر پیچھے لائن میں لگے لوگ باز پھر بھی نہیں آئیں گے۔ درویش کی استدعا یہ ہے کہ ہم کیوں نہ اپنے مسلم ممالک کو فکری و عملی طور پر ترقی یافتہ بناتے ہوئے مغرب کا ہم پلہ بنا لیں، اس کیلئے کئی فکری و عملی انقلابی اقدامات درکار ہونگے؟جب ان پر قلم اٹھائیں گے تو خوفناک ،نفرت بھری آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی درویش عرض کرتا ہے کہ آپ سخت ترین آوازیں ضرور بلند کریں، آپ اپنا روایتی نقطہ نظر جس قدر فراوانی سے پھیلا رہے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ پیش فرمائیں ہم سننے کو تیار ہیں لیکن ہمیں بھی اظہار رائے کی کچھ آزادی مہیا فرما دیں۔
فقہیہ شہر کی تحقیر کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد