میری اکثر اپنے دوستوں سے بحث ہوتی رہتی ہے کہ کیا پاکستان میں مذہبی جنونیت پروان چڑھ رہی ہے یا اب بھی امید کی کوئی کِرن باقی ہے؟ دوستوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ مذہبی انتہا پسندی بہت بڑھ چکی ہے اور ایسی سطح تک پہنچ چکی ہے جہاں سے واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اِس نقطہ نظر سے اختلاف کرنا بے حد مشکل کام ہے خاص طور سے ایسی صورتحال میں جب مذہب کے نام پر قتل ہو رہے ہوں، علمائے دین پر توہین مذہب کے الزام میں پرچے کاٹے جا رہے ہوں، پولیس اور فوج کیخلاف نام نہاد ”جہاد“ کیا جا رہا ہو اور حالات یہ ہوں کہ کسی مذہبی معاملے پر رائے دینے سے پہلے بندے کو سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہو کہ کہیں منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو کسی کو ناگوار گزرے۔ حالات کی یہ تصویر کشی کسی حد تک مبالغہ آمیز ہی سہی مگر قریب قریب درست ہے۔ لیکن اِسکے باوجود میں مایوس نہیں ہوں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے پاس مایوس ہونے کا آپشن ہی نہیں ہے۔ مایوس نہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ملک اتنا چھوٹا نہیں جتنا ہم نے اِسکو سمجھ لیا ہے، پونے نو لاکھ مربع کلومیٹر کے اِس ملک پر اگر دو چار ہزار مذہبی جنونی قبضہ کر سکتے ہوتے تو اب تک کر چکے ہوتے، لیکن اِس کیساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ یہی چند ہزار لوگ جب چاہیں آدھا ملک بند کروا سکتے ہیں اور اِس وقت یہی ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جا چکے ہیں اور اگر ایسا ہے تو اِس کا حل کیا ہے؟ میرے احباب کا خیال آپ جان چکے، میری رائے یہ ہے کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، سارا ملک جنونی نہیں ہوا، عوامی سطح پر لوگ انتہا پسند نہیں ہیں، اگر آپ یونہی سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں سے انٹرویو کریں جس میں ہر رنگ، نسل، عمر اور جنس کے لوگ شامل ہوں، پڑھے لکھے اور ان پڑھ، مذہبی اور غیر مذہبی، امیر اور غریب، میرا دعوٰی ہے کہ اُن کی اکثریت انتہا پسندانہ خیالات کی مخالف نکلے گی۔ ہاں، لوگ اپنے دین سے محبت کا اظہار کریں گے مگر وہ مذہبی جنونیت کی شکل نہیں ہوگی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس سروے میں جنونی لوگ بھی بے نقاب ہوں گے، مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔ یہ تو ہوا میرا دعویٰ، اب اِس دعوے کی پڑتال بھی کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ ملک میں اِس وقت تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، قطع نظر اِس سے کہ کون سی جماعت حکومت یا اپوزیشن میں کہاں بیٹھی ہے، یہ تین جماعتیں پاکستان کے عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہیں اور یہ تینوں غیر مذہبی ہیں، اِن جماعتوں کے علاوہ دیگر علاقائی اور لسانی جماعتیں اپنی شناخت میں غیر مذہبی ہی نہیں بلکہ سیکولر ہیں، مٹھی بھر جماعتیں ایسی ہیں جو مذہبی ہیں اور جنکی پارلیمان میں نمائندگی بھی ہے۔ اُسکے بعد آتے ہیں فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا پر، ریاست کے اِن تمام ستونوں میں بھی اب تک مذہبی انتہا پسندی سرایت نہیں کی ہے، انفرادی سطح پر ایسے لوگ ضرور ہونگے جو انتہا پسند رجحانات رکھتے ہوں گے مگر بحیثیت مجموعی یہ چاروں ستون فی الوقت اُس جنون سے محفوظ ہیں۔ سوسائٹی کا عمومی رویہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ غریب کی شادی ہو یا امیر کی، مہندی، ڈھولکی، ڈانس، حسب ضرورت اور حسب توفیق، ایسا ترتیب دیا جاتا ہے کہ بندے کی روح خوش ہو جاتی ہے، جن لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف بڑے شہروں میں ہوتا ہے وہ دیہات اور قصبوں کی شادیوں میں شرکت کرکے دیکھ لیں جہاں بعض اوقات مجرے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر ٹِک ٹاک اور انسٹاگرام نے پوری کر دی ہے، لڑکیاں ایسی ایسی اعلیٰ ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہی ہیں کہ مجھ ایسا بندہ سوچتا ہے کہ یہ ٹیلنٹ آیا کہاں سے۔ یہ سب کچھ اسی ’انتہا پسند معاشرے‘ میں ہو رہا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ اگر یہ معاشرہ اتنا ہی آزاد خیال ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ ہمارا معاشرہ نہ امریکہ کی طرح آزاد خیال ہے اور نہ افغانستان کی طرح جنونی، ہم فقط مذہبی رجحان رکھتے ہیں، یہاں لوگ اپنے دین اپنے مذہب سے محبت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ اپنی خوشیاں بھی مناتے ہیں، ہم سب نارمل لوگ ہیں اور نارمل انداز میں جینا چاہتے ہیں۔ یہ جو ہمیں معاشرے میں انتہاپسندی کا غلبہ نظر آتا ہے اُس کی وجہ مذہبی گروہوں کو سیاسی اور غیر سیاسی مصلحتوں کی بنا پر چھوٹ دینا ہے، اسی لیے اب اِس جِن کو واپس بوتل میں بند کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ یہ گروہ اتنے طاقتور نہیں جتنے نظر آتے ہیں، ریاست کی طاقت کے سامنے اِن کی حیثیت کچھ نہیں، انہوں نے ایک مذہبی بیانیہ گھڑ رکھا ہے جس کا جواب دینا سیاسی جماعتوں کا کام ہے، مگر وہ جماعتیں ہمت نہیں کرتیں، حالانکہ عوام نے اِن میں سے کسی بھی جماعت کو کبھی مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیا، عوام نے ہمیشہ اپنے لئے ایک غیر مذہبی لیڈر چنا، مگر منتخب ہونے کے بعد اِن سیکولر لیڈران نے اپنی جُون ہی بدل لی، اِن میں سے کسی نے شراب پر پابندی لگائی، کسی نے دوپٹہ اوڑھ لیا اور کسی نے ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی۔اگر ہم نے انتہا پسندی کی بیخ کُنی کرنی ہے تو مذہبی گروہوںکیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانی ہوگی، دنیا کی کوئی حکومت اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ جماعتیں یا گروہ مذہب کو ڈھال بنا کر دھرنا دیں یا جلوس نکالیں، اب کسی حد تک یہ حکمت عملی اپنائی بھی جا رہی ہے جو کہ مستحسن اقدام ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں ریورس گیئر بھی لگانا ہوگا، یہ سب سے مشکل کام ہے لیکن شروعات تو بہرحال کرنی ہوں گی۔ اور سب سے اہم بات، سیاسی جماعتیں مصلحتیں چھوڑیں اور اِس انتہا پسندی کے خلاف متحدہ بیانیہ تشکیل دیں، یہ کوئی مشکل کام نہیں، اندر سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اِن شدت پسند گروہوں کو برداشت کیا جائے مگر سب ڈرتے ہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے، حالانکہ سامنے کی بات یہ ہے کہ جس نے بڑھ کر بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھ دی، مینا اسی کا ہوگا۔