جان کی امان پاؤں توکچھ عرض کروں؟میرا نقطہ نظرذرا مختلف ہے۔اختلاف کی عام اجازت ہے۔پاک بھارت جنگ کس کے کہنے پر ختم ہوئی؟ ایران اسرائیل جنگ کو کس کی وجہ سے بریک لگی؟ روس اور یوکرین جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کس نے کی؟ اور اب غزہ امن معاہدہ کس کی وجہ سے ممکن ہوا؟۔ کچھ لوگ بڑبولے ہوتے ہیں، احمقانہ حرکتیں کرتے ہیں اور ہمیں لگتاہے کہ یہ بس یہی کچھ کر سکتے ہیں۔ اچھے اور بڑے کام ہم نے سنجیدہ اور ذہین لوگوں پر ڈال رکھے ہیں حالانکہ ان سے بھی کئی بونگیاں سرزد ہوجاتی ہیں لیکن ان کی شخصیت کا مجموعی تاثر اس پر پردہ ڈالے رکھتاہے۔ٹرمپ لاکھ احمق سہی لیکن اوپروالے سارے سوالوں کے جواب میں اسی کانام سامنے آتا ہے۔ ہرملک اپنا فائدہ سوچتا ہے، ہم بھی یہی کرتے ہیں لیکن ہمیں ہضم نہیں ہوتاکہ جس ملک سے ہمارے اچھے تعلقات ہوں وہ ہمارے دشمن ملک کیساتھ کیوں پینگیں بڑھائے۔ رقابت کا جذبہ انسان کی سرشت میں ہے لہٰذایہ ہر اس جگہ اپلائی ہوتاہے جہاں ذاتی مفاد یا ذاتی پسندناپسندآڑے آتی ہے۔ٹرمپ کو نوبل انعام نہیں مل سکا، شائداسکی وجہ یہ تھی کہ وہ خود اس انعام کا خواہشمندتھا۔ تو کیا اسے یہ خواہش نہیں رکھنی چاہیے تھی؟ کیانوبل انعام کی خواہش رکھناغلط بات ہے؟وہ لوگ جو جھنجھلاہٹ میں غلطیاں کرتے ہیں، خودپرقابو نہیں پاسکتے، اپنے تئیں کام سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن الٹا پڑجاتاہے، باربارخود کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بعض اوقات جگری دوستوں سے محروم ہوتے ہیں۔جگری دوست وہ ہوتے ہیں جن کے درمیان آپ بڑے نہیں ہوتے، وہ آپ پرتنقید کرتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں۔دوست بنائے نہیں جاتے بن جاتے ہیں۔ دوستوں کے ہوتے ہوئے آپ عقل ِ کُل ہونے کے خوفناک عذاب سے سے بچے رہتے ہیں۔بدقسمتی سے ٹرمپ اس نعمت سے محروم ہے۔
٭٭٭٭
ایک رپورٹ کے مطابق دنیاکے کامیاب ترین انسان سورج نکلنے سے پہلے اپنادن شروع کرتے ہیں۔ بیدار ہوتے ہی موبائل نہیں اٹھاتے۔ کم ازکم پندرہ منٹ کی مارننگ واک یا تیراکی کرتے ہیں۔چندمنٹ یوگایا مراقبہ کرتے ہیں۔پروٹین سے بھرپورناشتہ کرتے ہیں۔ اپنے روز کے مقاصد واضح کرتے ہیں۔وہ روز اپنے اہداف لکھتے ہیں، حوصلہ افزا جملے دہراتے ہیں اور ذہنی طور پرکامیابی کا تصور کرتے ہیں۔یہ ساری باتیں کتنی اچھی لگتی ہیں۔کامیاب ہونے کے بعد ایسے اوٹ پٹانگ شیڈول لوگوں کوبہت متاثر کرتے ہیں۔ دنیا میں بھرے پڑے ہیں ایسے لوگ جواِس شیڈول کے بالکل الٹ کرتے ہیں اور پھر بھی کامیاب ہیں۔رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کامیاب ترین افراد جب کامیاب نہیں تھے تو کیا کرتے تھے؟ کامیاب بندہ جونہی لائم لائٹ میں آتا ہے ایک دم سے رول ماڈل بننے کی کوشش کرتاہے۔سینٹری کا عملہ روزانہ علی الصبح اٹھتاہے، سینٹری کا کام اپنی جگہ ایک ورزش سے کم نہیں۔ یہ لوگ ناشتہ بھی یقینا کرتے ہیں۔مراقبے کا پتا نہیں اور شائد کامیابی کے جملے بھی نہیں دہراتے اسی لیے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں۔ناکام ترین لوگوں میں بھی کامیاب ترین لوگوں والی یہ عادات ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ ناکام ہوتے ہیں اسلئے مثال نہیں بن پاتے۔کامیابی کا معیار دولت ہے۔کامیاب لوگوں کی فہرست میں عبدالستار ایدھی کا نام کیوں نہیں آتا، رتھ فاؤکا نام کیوں نہیں آتا، مدر ٹریسا کا نام کیوں نہیں آتا۔ان شخصیات کے نام رحمدل، سوشل ورکر اور انسانیت سے محبت کرنیوالوں کی فہرست میں تو آتے ہیں، کامیاب ترین لوگوں میں نہیں۔
٭٭٭٭
عرب چینل کی ایک نیوز کاسٹر ٹی وی پر لائیو تھی کہ اچانک ایک چوہے نے اس کے سامنے ڈیسک پر چھلانگ لگا دی جس سے نیوزکاسٹر کی چیخ نکل گئی۔ وڈیو وائرل ہے یقیناً بہت سوں نے دیکھ لی ہوگی۔ خواتین یا مرد نیوز کاسٹرز کی زندگی ہمیں اسکرین پر بڑی اچھی لگتی ہے لیکن میڈیا کے لوگ جانتے ہیں کہ یہ بیچارے ہر وقت ریڈی رہنے کیلئے مجبور ہوتے ہیں۔ انہیں میک اپ میں رہنا پڑتاہے، ارجنٹ کال پر اسٹوڈیو بھاگناپڑتاہے۔ ان میں سے جو رات کی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں وہ اکثر کسی میز پرسرٹکائے نیند پوری کرتے نظرآتے ہیں۔ انکی بھی گھریلوپریشانیاں ، مسائل ہوتے ہیں۔ خبریں پڑھتے پڑھتے یہ ایک روبوٹ بن جاتے ہیں جو تاثرات سے عاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔کبھی انہیں خبروں کیلئے بلاوہ آجاتا ہے اور کبھی یہ سارا وقت متبادل کے طور پر آن ڈیوٹی رہتے ہیں۔ان میں سے کئی کھانا گھر سے لے کر آتے ہیں اور مل جل کر کھالیتے ہیں۔ تیز روشنیوں کے سامنے رہتے رہتے یہ اسکن پرابلم کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔سب سے سخت ڈیوٹی ان کی ہوتی ہے۔لائیو خبریں پڑھتے ہوئے چھوٹی سی غلطی بھی دیکھنے والوں کیلئے تماشا بن جاتی ہے۔ پھر ان کے آگے سے چوہا گزر جائے اور یہ چیخ مار دیں تو لوگ اور بھی مزا لیتے ہیں۔ہمیں دوسروں کو ہڑبڑاتے اور گھبراتے ہوئے دیکھ کر بڑا لطف آتا ہے۔ کبھی دیکھئے گا تیز بارش میں کسی کی گاڑی پانی میں پھنس جائے تو آس پاس کھڑے کتنے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں۔
٭٭٭٭
ایک امریکی اداکارہ ’بٹ لیڈی‘ گزشتہ دنوں وفات پاگئیں ان کی ایک سیریز’میریڈ وِد چلڈرن‘ بڑی مقبول ہوئی تھی۔انہیں خوبصورت لگنے کا جنون تھا لہٰذااپنی بیوٹیشن کے مشورے سے سلیکون بھرے بیوٹی انجکشنز لگوایا کرتی تھیں۔خواتین میں خوبصورت لگنے کا رجحان قدرتی تو ہے لیکن بعض اوقات اس میں جنون دیکھنے کو ملتا ہے۔کئی دفعہ تو شادی میں دلہن سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں نظر آجاتی ہیں اور دولہا سوچتا رہ جاتا ہے کہ شادی سے پہلے یہ ساری کہاں تھیں؟۔ مصنوعی خوبصورتی اصل میں بدصورتی کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ہمارے ہاں بھی گلی گلی کھلے بیوٹی پارلرز نے اپنی ذاتی بیوٹی کریمیں ایجاد کرکے خواتین کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایاہوا ہے۔ان میں سے اکثرنے دس سال پہلے کوئی برینڈڈ میک اپ خریدا ہوتاہے لیکن بعد میں اُس کی ڈبی میں اپنی کریمیں بھر بھر کے سجائے رکھتی ہیں اور خواتین امپریس ہوجاتی ہیں کہ امپورٹڈ میک اپ کروایا ہے۔اب تو مردوں کو بھی یہ بیماری لاحق ہوگئی ہے۔