• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ صرف سیاسی تجزیہ نہیں، یہ اس وطن کی لرزتی ہوئی داستان ہے جسے بار بار آگ اور خون سے دھویا گیا۔ آج جب خیبر پختونخواکی سرزمین ایک بار پھر بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے، تو سب سے بڑا اور جگر چیر دینے والا سوال یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو، جسکے ہاتھ آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کے لہو سے رنگین تھے، ملک میں واپس آنے اور آباد ہونے کی اجازت کس نے دی؟ جواب ایک نام سے جڑا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ مرکزی قیادت۔ یہ صرف ایک جماعت کا فیصلہ نہیں تھا، یہ قوم کی سلامتی سے ایک سنگین غداری تھی جسکے نتائج آج ملک کا ہر شہری بھگت رہا ہے۔

2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد، ہزاروں کی تعداد میں TTP کےجنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کی پاکستان واپسی کا معاملہ قومی سلامتی کا خوفناک المیہ بن کر سامنے آیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بعد میں اس فیصلے کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ ان کے پاس ان 30 سے 40 ہزار افراد کو ملک میں واپس لینے اور انھیں 'قومی دھارے'میں لانے کیلئے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیا کوئی لیڈر یہ بھول سکتا ہے کہ 'قومی دھارے میں وہ لوگ نہیں آتے جو ریاست کے بنیادی وجود سے انکار کرتے ہوں؟

یہ فیصلہ شب و روز کی خاموشی میں کیا گیا، پارلیمنٹ یا قوم کو اعتماد میں لینا گوارا نہ کیا گیا۔ سیکورٹی کے معاملات کو محض ایک اندرونی سیاسی کھیل سمجھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کی سلامتی کے بنیادی اصولوں سے ایک صریح انحراف تھا۔ ہر ذی شعور پاکستانی جانتا تھا کہ TTP کوئی عام باغی گروہ نہیں، بلکہ ایک سفاک، نظریاتی دہشت گرد تنظیم ہے جو پاکستان کی ریاست کو تباہ کر کے اپنی شدت پسند 'امار'ت قائم کرنا چاہتی ہے۔

اس فیصلے کو مزید زہریلا بنانے والی بات یہ تھی کہ ہماری سیکورٹی ایجنسیاں برسوں سے یہ انکشاف کر رہی ہیں کہ TTP کو نہ صرف نظریاتی بلکہ مالی اور مادی معاونت بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے حاصل رہی ہے۔ کیا کوئی محب وطن قیادت دشمن کی حمایت یافتہ تنظیم کے ساتھ 'آباد کاری'کا معاہدہ کر سکتی ہے؟ یہ ایک مجرمانہ غفلت تھی، جسکی لپیٹ میں آج پوری قوم ہے۔ PTI کی قیادت نے اپنی سیاسی یا نظریاتی تسکین کی خاطر، ملک کے بنیادی دفاع کو نظرانداز کیا اور قوم کو دہشت گردی کی ایک نئی، تباہ کن لہر کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ اس فیصلے کے بعد TTP کو پھر سے جڑ پکڑنے اور منظم ہونے کا موقع ملا، اور آج خیبر پختونخوا میں ہماری سیکورٹی فورسز پر ہونیوالے حملوں کی شدت اقتدار کی اس غلطی کی گواہی دے رہی ہے۔علی امین گنڈاپور نے اپنے دور میں دہشت گردی کیخلاف جاری فوجی کارروائیوں کی کھل کر حمایت کی تھی۔ ان کا مؤقف ہمیشہ سخت گیر رہا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ دہشت گردی کا مقابلہ ریاستی رٹ اور فوجی طاقت سے ہی ممکن ہے۔ ان کا مؤقف کسی حد تک وفاقی حکومت اور فوج کے اس آہنی عزم سے ملتا تھا کہ TTP کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ان کی برطرفی کے پیچھے قیاس آرائی یہ ہے کہ عمران خان ایک ایسی قیادت لانا چاہتے ہیں جو وفاقی حکومت اور فوج کے TTP مخالف بیانیے اور آپریشنز کو کمزور یا سبوتاژ کر سکے۔ نئے نامزد کردہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی آمد پر PTI کے مرکزی رہنماؤں نے واضح طور پر کہا ہے کہ نئے وزیراعلیٰ سے توقع ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی سیکورٹی پالیسیوں سے خود کو ’دور رکھیں گے‘'اور امن کیلئے قبائلی جرگوں اور مصالحت کا راستہ اپنائیں گے۔

یہ دراصل اسی پرانے، ناکام اور خطرناک مذاکراتی ایجنڈے کی طرف ایک شرمناک واپسی ہے جس کا فائدہ TTP نے ماضی میں ہر بار خود کو مضبوط کرنے اور نئے حملوں کی منصوبہ بندی کیلئے اٹھایا۔ جب ملک پر دہشت گردی کا سایہ منڈلا رہا ہو اور قوم دہشت گردی کیخلاف متحد ہو، ایسے میں یہ تبدیلی اس تلخ حقیقت کو تقویت دیتی ہے کہ PTI کی قیادت اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصو ل کیلئے TTP کیخلاف جاری قومی کوششوں میں جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالنا چاہتی ہے۔ ان کا مقصد حکومتی اور عسکری کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے تاکہ امن کا خواب ایک بار پھر چکنا چور ہو جائے۔

TTP کی آبادکاری کی اجازت دینا اور پھر علی امین گنڈاپور جیسے سخت مؤقف رکھنے والے وزیراعلیٰ کو ہٹانا محض ایک انتظامی تبدیلی نہیں۔ یہ قوم کے امن، سیکورٹی فورسز کی عظیم قربانیوںاور دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے کیساتھ ایک بڑی غداری ہے۔ یہ فیصلے ثابت کرتے ہیں کہ PTI کی قیادت TTP کو ایک قومی سیکورٹی چیلنج کے بجائے ایک سیاسی آلہ کار سمجھتی رہی، ایک ایسا مہرہ جسے اقتدار کے کھیل میں اپنے فائدےکیلئے استعمال کیا جا سکے۔ہمارے شہداء کا خون چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا ان کی قربانیاں صرف اسلئے تھیں کہ کچھ سیاسی رہنما اپنی ذاتی لڑائیوں کیلئے ان قاتلوں سے مذاکرات کریں اور انہیں آباد کریں؟ یہ کہانی صرف ایک سیاسی جماعت کی نہیں، یہ ریاست کی اجتماعی بصیرت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ قوم کو اس سازش کو پہچاننا ہوگا اور ہر اس لیڈر کو مسترد کرنا ہوگا جو ملک کی سلامتی پر سودے بازی کرتا ہے۔ تب ہی خیبر پختونخوااور پورا پاکستان دوبارہ امن اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔

تازہ ترین