سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 26 سال قبل 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار سے نکالا گیا تھا۔
اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ساتھیوں کی مدد سے منتخب وزیرِ اعظم کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
کارگل سے شروع ہونے والی تلخی نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے درمیان ایسی خلیج پیدا کی کہ پرویز مشرف کوان کے دورۂ سری لنکا سے واپسی کے دوران برطرف کر دیا گیا۔
مگر جنرل مشرف کے 4 ساتھیوں اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل عزیز احمد، کور کمانڈر راولپنڈی جنرل محمود، ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل شاہد عزیز اور اس وقت کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس جنرل احسان الحق نے کراچی کے کور کمانڈر مظفر عثمانی اور دیگر کی مدد سے ناصرف نواز شریف حکومت برطرف کی بلکہ پرویز مشرف کو اقتدار سونپ دیا۔
پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا، پہلے چیف ایگزیکٹیو اور پھر صدر اور آرمی چیف بنے، دنیا ان سے ناراض تھی مگر نائن الیون نے ان کی کایہ پلٹ دی، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مغرب کی نظر میں ہیرو بنے۔
انہوں نے ملک میں بے نظیر بھٹو اور نوازشر یف کی عدم موجودگی میں انتخابات کروا کے اپنی مطلق العنانیت پر جمہوری تڑکا لگایا۔
پرویز مشرف نے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سے 12 اکتوبر کے اقدامات کی توثیق لی اور کم و بیش 9 سال اقتدار پر براجمان رہے۔
انہوں نے 3 نومبر 2007ء کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے دوسری ایمرجنسی لگائی مگر ان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں، وہ 18 اگست 2008ء کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
ان کے خلاف 2007ء کی ایمرجنسی کا مقدمہ چلا اور ان کی جلا وطنی کے دوران انہیں خصوصی عدالت نے سزا بھی دی، تاہم انہوں نے اس سزا کا ایک دن بھی جیل میں نہ گزارا۔
جلاوطنی کے دوران وفات ہوئی تو ان کے جسدِ خاکی کو پورے اعزاز کے ساتھ کراچی میں سپردِ خاک کیا گیا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کو اقتدر میں دھکیلنے والے آج بھی بقید حیات ہیں مگر کوئی جواب دینے سے قاصر ہیں۔
پارلیمنٹ اور عدالت نے 12 اکتوبر 1999ء کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق تو کی مگر تاریخ کا فیصلہ عدالتوں اور اُس وقت کی کنٹرولڈ پارلیمنٹ کے فیصلے سے آج بھی بڑا ہے۔