افغانستان میں، خوں آشام دہشت گردوں کی پرورش و نُمو کرنیوالی تربیت گاہوں اور محفوظ پناہ گاہوں کیخلاف ایک فیصلہ کن آپریشن ناگزیر ہوگیا تھا۔ سو حکومت اور مسلح افواج نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا۔ مشن جاری ہے۔ عین اُس وقت، خیبرپختون خوا میں عمران خان نے ایک ایسی متوازی حکمت عملی کا فیصلہ کیا ہے جو وفاقی حکومت اور عساکرِ پاکستان کے اہداف ومقاصد سے نہ صرف مطابقت نہیں رکھتی، بلکہ بڑی حد تک متصادم ہے۔ اس حکمتِ عملی کی تمام تر ہمدردیاں اُن عناصر کیساتھ ہیں جو شہریوں اور مسلح افواج پر حملے کرکے، کچھ دِلوں میں پائی جانیوالی نفرت وکدورت کیلئے آسودگی کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ 29جنوری 2014ء کا ذکر ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں سے مشاورت کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہم امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبان پاکستان) کیساتھ بات چیت کا راستہ کھولا جائے۔ کوئی ایسی بات نہیں مانی جائیگی جو پاکستانی ریاست اور اس کی حاکمیت اعلیٰ سے متصادم ہو۔ اس موقع پر وزیراعظم نے، قومی اسمبلی میں ہی چار رُکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا جسکی منظوری ایوان نے ڈیسک بجا کر دی۔ سب سے پُرجوش ردّعمل عمران خان کا تھا۔ چار رُکنی کمیٹی میں مجھے بطورِ حکومتی نمائندے کے شامل کیاگیا۔ دیگر ارکان میں افغان امور کے ماہر اور معروف صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور افغان امور سے گہری آگاہی رکھنے والے میجر (ر)محمد عامر شامل تھے۔ خلافِ توقع، ٹی ٹی پی نے اس پیش رفت کو فوری طور پر خوش آمدید کہا۔ اگلے ہی دِن انہوں نے باضابطہ طورپر اطلاع دی کہ سرکاری کمیٹی سے بات چیت کیلئے ہم نے بھی چار ارکان کی کمیٹی نامزد کر دی ہے۔ اَب جگر تھام کے اس تاریخی حقیقت کے کچوکے کے لئے تیار ہوجائیے کہ وہ چار شخصیات کون سی تھیں جن پر طالبان نے نہ صرف اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا بلکہ اُنہیں اپنی نمائندگی کا اعزاز بھی بخشا ۔
ٹی ٹی پی کی نامزد کردہ کمیٹی میں، پہلا نام، تحریک انصاف کے بانی عمران خان کا تھا۔ دوسرا مولانا سمیع الحق مرحوم کا، تیسرا اسلام آباد لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کا اور چوتھا جماعت اسلامی کے راہنما پروفیسر محمد ابراہیم کا۔ میں نے مولانا سمیع الحق سے پوچھا کہ کیا واقعی ٹی ٹی پی نے عمران خان کو اپنی مذاکراتی کمیٹی کے نمائندے کے طور پر نامزد کیا ہے؟ مولانا نے مجھ سے تھوڑا وقت لیا اور تصدیق کرتے ہوئے کہنے لگے ’’انہوں نے نامزد ہی نہیں کیا، اصرار بھی کر رہے ہیں۔‘‘ جب میں نے یہ بات وزیراعظم نوازشریف کو بتائی تو وہ تصویرِ حیرت بنے مجھے دیکھتے رہ گئے۔ پھر بولے ’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے کہاکہ ’’جی ہاں‘‘۔ کہنے لگے ’’ آپ ری چیک کرلیں۔ مجھے تو یہ بہت عجیب سی بات لگتی ہے۔‘‘ ’ری چیک‘ نے اسے مزید مستند ٹھہرا دیا۔ خان صاحب تک بات پہنچی تو انہوں نے پارٹی سے مشاورت کے بعد، طالبان مذاکراتی کمیٹی کا رُکن بننے سے معذرت کرلی تاہم انہوں نے وزیراعظم نوازشریف سے کہاکہ رستم شاہ مہمند کو تحریکِ انصاف کا نمائندہ سمجھ لیا جائے۔
عمران خان، ٹی ٹی پی کمیٹی کے رُکن تو نہ بنے لیکن افغان طالبان کے بازوئے شمشیر زَن کے طورپر کام کرنے اور پاکستان میں دہشت گردی کی ہولناک وارداتیں کرنیوالی ٹی ٹی پی کمیٹی کی طرف سے اُنکی نامزدگی، دونوں کے باہمی اعتماد، گہرے تعلق اور مفادِ باہمی کی کہانی ضرور بیان کرتی ہے۔ اس بات کو اب گیارہ سال ہوچکے ہیں۔ کروٹیں بدلتے سیاسی حالات و واقعات کی تُرشی، دونوں کے نشے کو نہیں اُتار سکی۔ عمران خان کے عشق ِفراواں میں کوئی کمی آئی نہ وہ ٹی ٹی پی کے دِل سے اُترے۔ تازہ ترین حالات سے لگتا ہے کہ حُسن کی شوخیاں بھی قائم ہیں اور عشق کی گرمیاں بھی۔
ٹی ٹی پی سے عمران خان کی لگاوٹ اور ہمدردی کا ایک بڑا واقعہ، اُن کے عہدِ اقتدار کے آخری مہینوں میں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کو، صوبہ خیبرپختون خوا لا بسانا تھا۔ یہ تصوّر کس نے پیش کیا؟ اِس امر کی ضمانت کس نے دی کہ جن کی تلواروں کو خون کی چاٹ لگ گئی ہے وہ پاکستان آکر معصومیت کے سانچے میں ڈھل کر امن وآشتی کے سفیر کیسے بن جائیں گے؟ کیا ان لوگوں کی باضابطہ رجسٹریشن اور بعدازاں نگرانی کا کوئی ٹھوس بندوبست بھی بنایاگیا؟ عمران خان کے بقول چالیس ہزار کے لگ بھگ، اِن جنگجوؤں کے اہلِ خاندان لا بسائے گئے، وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ فروری 2023ء میں، وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے ’ڈان‘ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’جب افغان جنگ ختم ہوئی تو عمران خان نے بتایا کہ تیس سے چالیس ہزار پاکستانی قبائلی جنگجو واپس آنا چاہتے ہیں۔‘‘ عمران نے مزید کہا ’’پی ٹی آئی حکومت کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ ان سب جنگجوؤں کو ہلاک کردے یا پھر اُن کیساتھ کسی معاہدے پر پہنچے اور اُنہیں صوبے (خیبرپختون خوا) میں آباد ہونے کا موقع دے۔ واپس آنیوالے ان جنگجوؤں کو اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنا ضروری ہے تاکہ صوبے میں امن قائم کیا جا سکے۔‘‘ ریاض پیرزادہ نے یہ بھی بتایا کہ’’ ایک ’اِن کیمرا میٹنگ‘ میں جنرل باجوہ نے ٹی ٹی پی کو واپس پاکستان لانے کی وکالت کی تھی۔‘‘ اس پر بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہبازشریف نے کہا تھا کہ یہ لوگ بینظیر بھٹو شہید سمیت ، کئی اہم شخصیات کے قتل میں ملوث ہیں۔ لیکن فیصلہ کرلیاگیا۔ اس میں خاصی سرگرمی جنرل (ر) فیض حمید نے دکھائی۔
آج، جب کہ اپنے پیاروں کی ہزاروں لاشیں اٹھانے کے بعد، پاکستان کا پیمانۂِ صبر لبریز ہوچکا ہے اور اُس نے دہشت گردوں، سرپرستوں اور اُنکی پناہ گاہوں پر ضرب ِکاری کا فیصلہ کرلیا ہے، عمران خان ایک بار پھر تاریخ کی غلط سمت جاکر کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یکایک علی امین گنڈا پور کو ہٹا کر ایک ایسے مرغِ دست آموز کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا ہے جسکا سارا زورِ بیاں، دہشت گردوں کی ہم نوائی پر صرف ہوتا رہا، جو اُن کیخلاف کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں اور جو اِن جنگجوؤں کو اپنی سیاسی سپاہ کا ہراول دستہ سمجھتا ہے۔ کیا عمران خان حکومت گرانے اور انقلابِ عظیم بپا کرنے کیلئے جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، لانگ مارچز، 9مئی، فائنل کالز، سول نافرمانی، آئی ایم ایف اور سمندر پار پاکستانیوں سے اپیلوں سے مایوس ہوکر یہ انتہائی خطرناک حربہ استعمال کرنے جا رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کو دہشت گردوں کے ہاتھوں زچ کر دیا جائے؟ دو دِن قبل انتہائی مستند شواہد اور معتبر ذرائع تک رسائی رکھنے والے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے اِس جُملے کا ترجمہ کرنے کیلئے کسی لُغت کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا’’ایک فرد، دہشت گردی واپس لایا۔ ریاست، عوام کو اُسکے فیصلے اور اُسکی خواہش پر نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ کیا عمران خان، جنگجوؤں کی محبت میں خود بھی ایک خوفناک جنگی مہم کے الاؤ تک آن پہنچے ہیں؟اُدھر عمران خان کی سوچ میں لتھڑے ’’تحریکِ تحفظ آئین پاکستان‘‘ کے اعلامیے میں دُشنام طرازی کی گئی ہے کہ ’’قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔‘‘ یہ پاکستان کے اُن بیٹوں کو ’’خراجِ تحسین‘‘ ہے جو وطن اور اہلِ وطن کیلئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں_اور اُن دہشت گردوں کی پیٹھ پر تھپکی، جو کئی دہائیوں سے ہمارا لہو پی رہے ہیں۔