• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران متعدد کمپنیوں کی مکمل یا جزوی بندش کی بڑی وجہ بجلی، گیس اور خام مال کی قیمتوں میں ہونے والا مسلسل اضافہ ہے جس کی وجہ سے پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ علاوہ ازیں افراط زر، مارک اپ ریٹ اور ٹیکس کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یہ صورتحال کسی ایک حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سالہا سال سے جس طرح ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اسی طرح معاشی محاذ پر بھی کوئی طویل المدت حکمت عملی نظر نہیں آتی ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں اضافہ کرنے کی بجائے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی رہی ہے۔ اسکے نتیجے میں کمپنیوں کا منافع سکڑتے سکڑتے اس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں سرمایہ کار یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اس نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے بعد بھی کوئی جائز منافع کمانے کی بجائے حکومت کو جیب سے ٹیکس ادا کرنا ہے تو وہ کاروبار کیوں کرے ۔

اس وقت پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس دنیا بھر سے زیادہ ہے اور ایک بڑی کمپنی کو تقریبا 39 فیصد انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سپر ٹیکس کے نفاذ نے انڈسٹری کو مکمل طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس بھاری ٹیکس کی ادائیگی کے بعد جب کمپنی اپنے شیئر ہولڈرز کو منافع ادا کرتی ہے تو اس پر بھی 15 سے 25 فیصد تک ٹیکس دینا پڑتا ہے حالانکہ یہ آمدنی پہلے ہی ٹیکس شدہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ایکسپورٹرز پر بھی انکم ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کر دیا گیا ہے اور جیسے ہی کسی برآمدی آرڈر کی ادائیگی بینک میں آتی ہے۔ اس میں سے پہلے دن ہی دو فیصد انکم ٹیکس اور آدھ فیصد بینک چارجز کاٹ لئے جاتے ہیں جس کے بعد ایکسپورٹرز کا مارجن اتنا کم ہو جاتا ہے کہ ان کے لئے کاروبار جاری رکھنا قابل عمل نہیں رہتا۔

حال ہی میں ٹیکسٹائل کے ایک بڑے گروپ کی جانب سے ملبوسات کے شعبے کو بند کر دیا گیا ہے۔ انہیں یہ فیصلہ اس وجہ سے کرنا پڑا کہ پیداواری لاگت زیادہ ہونے اور ٹیکس کی شرح بڑھنے کے باعث ان کی خطے کے دوسرے ممالک سے مسابقت کم ہو گئی تھی جس کی وجہ سے کاروبار مسلسل نقصان میں جا رہا تھا۔ اس لئے انکم ٹیکس کو کم کرکے دوبارہ ایک فیصد کرنے اور فائنل ٹیکس کو بھی ایک فیصد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انڈسٹری کو کچھ ریلیف مل سکے۔

قبل ازیں ایکسپورٹ انڈسٹری کو ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے تحت خام مال کی خریداری کے حوالے سے جو تھوڑی بہت سہولت حاصل تھی اسے بھی سپننگ انڈسٹری کے دباؤ پر واپس لے لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی سپننگ انڈسٹری کی زیادہ تر مشینری فرسودہ ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو مقامی دھاگہ مہنگا اور درآمدی دھاگہ سستا پڑتا ہے لیکن اب درآمدی دھاگے پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرکے ایکسپورٹ انڈسٹری کا اس طرف سے بھی گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ پنجاب میں سیلاب کے بعد جس طرح کپاس کی فصل متاثر ہونے کی خبریں آ رہی ہیں اس کے بعد مقامی سطح پر دھاگہ مزید مہنگا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے بعد انڈسٹری کے لئے اس کی خریداری مزید مشکل ہو جائے گی۔ دوسری طرف احتجاج کی سیاست نے بھی انڈسٹری کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے جس کی حالیہ مثال سندھ میں سڑکوں کی بندش سے برآمدی آرڈرز کی ترسیل میں ہونے والی تاخیر ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی روانگی میں دو سے تین ہفتوں کی تاخیر نے جہاں انڈسٹری کے پیداواری عمل کو متاثر کیا وہیں عالمی منڈی میں پاکستانی کمپنیوں کی ساکھ کو بھی دھچکا پہنچا جبکہ اضافی مالی اخراجات کے باعث ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔

اسی طرح مختلف حکومتوں کی مالیاتی اور سیاسی پالیسیوں نے بھی انڈسٹری کے لئے مشکلات بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مثال ا سٹیٹ بینک کی بی ایم آرا سکیم ہے جس کے تحت انڈسٹری کو جدید مشینری خریدنے کے لئے رعایتی مارک اپ پر قرضے دیئے گئے تھے۔ تاہم جب یہ مشینری کراچی پورٹ پر پہنچ گئی تو ڈالر کا ریٹ بڑھنے کی وجہ سے حکومت نے امپورٹ پر پابندی لگا دی اور یہ مشینری طویل عرصے تک پورٹ پر پڑے رہنے کی وجہ سے جہاں زنگ آلود ہو گئی وہیں انڈسٹری کو اسے کلیئر کروانے کے لئے اضافی لاگت اور ہرجانہ ادا کرنا پڑا جس کے بعدا سٹیٹ بینک کی طرف سے دی گئی رعایت کا بھی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔

پاکستان میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے ایکسپورٹرز کو فائدہ ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چھ سال کے دوران ڈالر کی قدر میں تقریبا 300 فیصد اضافے سے انڈسٹری کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زرمبادلہ کی شرح میں عدم استحکام کی وجہ سے ویلیو ایڈڈ سیکٹر میں استعمال ہونے والے زیادہ تر خام مال کی قیمت میں ڈالر کی قدر سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا گیا تھا جس کا تمام تر بوجھ ایکسپورٹرز کو برداشت کرنا پڑا۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی فراہمی کے حوالے سے بھی حکومت کی پالیسیاں انڈسٹری کے لئے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتی آ رہی ہیں۔ اس لئے اگر حکومت ملک میں معاشی استحکام لانا چاہتی ہے تو اس کےلئے فوری اقدامات ضروری ہیں، مزید تاخیر سے نہ صرف ان کی افادیت ختم ہو جائے گی بلکہ مستقل بند ہو جانے والی انڈسٹری کی بحالی بھی ممکن نہیں رہے گی۔

تازہ ترین