• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری عمر کے لوگوں نے اپنے بچپن میں افغانستان کے ایک حکمران غازی امان اللہ خان کی تصویر دیکھی ہوگی یہی نہیں تب شاید رسائل میں ان کے بارے میں کچھ قصیدے بھی شائع ہوئے تھے جس پر سمجھ دار بزرگ کہتے تھے کہ غازی افغانستان میں تعلیم خاص طور پر عورتوں کی تعلیم کا حامی ہے اس لئے انگریز ضرور قدامت پرستوں کو اکسا کر اس کیخلاف سازش کریں گے اور آخر اسے کابل کے تخت پر رہنے نہیں دیں گے اور ویسا ہی ہوا بچہ سقہ سے بغاوت کرائی گئی ،بعد کے زمانوں میں کچھ اور باتیں بھی سامنے آئیں کہ دوغلے انگریزوں نے غازی کی ملکہ ثریا طرزی کی بے پردگی کو خاص طور پرنشانہ بنایا تھا ۔آج بھی اس کے بارے میں بہت سا تاریخی مواد مل جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ افغان عورت خیمہ نما برقعے سے نجات حاصل کرے،عورت کابل یونیورسٹی کی مخلوط تعلیم سے نہ گھبرائے ساتھ ہی ساتھ وہ افغان مردوں سے بھی کہتی تھیں کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں نہ کریں جبکہ غازی امان اللہ کے تائیدی بیانات بھی ہیں کہ میں بادشاہ ضرور ہوں مگر میری ملکہ میری وزیر تعلیم ہے اور پھر ایک وقت آیا کہ غازی اور ان کی ملکہ کو اطالیہ کے دارالحکومت میں پناہ لینی پڑی۔ یہ باتیں کچھ اس لئے یاد آئیں کہ اسی ماہ یعنی اکتوبر کی سولہ تاریخ تھی کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو پنڈی کے جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا ان کا قاتل سید اکبر برطانوی انٹلیجنس کا وظیفہ خوار تھا آپ کئی مرتبہ پڑھ چکے ہوں گے کہ ایس پی نجف خان کے حکم پر ایک پولیس انسپکٹر نے سید اکبر کو گولی مار دی اور بعد میں سید اکبر کے سامان کی تلاشی لی گئی تو اس میں لاہور اور پنڈی کے دو اخبارات(تعمیر اور نوائے وقت) کے اداریوں اور مضامین کے تراشے تھے جن میں سید اکبر نے اپنی عقل کے مطابق نشان لگائے ہوئے تھے ،بتانے کی ضرورت ہے کہ لیاقت علی خان کی خوبصورت بیگم رعنا لیاقت علی کی بے پردگی اورمخلوط محفلوں میں شرکت کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ممکن ہے کہ یہ بھی اتفاق ہو کہ سید اکبر مبینہ طور میں غازی امان اللہ کی فوج میں شاید بریگیڈیر تھا اور جب غازی کے خلاف بغاوت ہوئی تو اسے پاکستانی علاقے میں پناہ دے دی گئی اور اگر ذرا سی کھوج لگائیں تو آپ بھی میری طرح سراسیمہ ہو سکتے ہیں سید اکبر کی بیوہ کو وظیفہ یا پنشن دی گئی اور ان کے بچوں( سید اکبر اور پھر بیوہ کے طور پر دوسری شادی سے ہونیوالے بچوں) کو ایبٹ آباد میں رہائش کے لئے ایک آراستہ گھر دیا گیا۔ ہمارا بہت جی چاہتا ہے کہ افغانوں کو پاکستانیوں کی میزبانی اور اس کے عوض ملنے والی سزا یا عقوبت کا ذکر نہ کیا جائے مگر جب افغانستان کے وزیر خارجہ نے بھارت جا کر کشمیر کے بارے میں دل آزار بیان دیا اور اسی رات بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستانی چوکیوں پر حملہ کر دیا جس پر پاکستانی فوج کی چوکسی اور قربانی نے بھارت اور افغانستان گٹھ جوڑ کو ناکام بنا دیا۔ بدقسمتی سے بھارت میں برسراقتدار جماعت نے پاکستان کے خلاف اپنے عناد کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اس موقع پر بھی بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل دیں گے ادھر ہمارے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ایک طرف اپنی قوم کو باربار آگاہ کر رہے ہیں کہ بھارت حالیہ جنگ میں ہزیمت کے بعد مسلسل تلملا رہا ہے اس لئے ہمیں چوکس رہنا چاہئے دوسری طرف وہ ان کے وزیر دفاع کو بھی چیلنج کرتے رہتے ہیں کہ جب چاہے آ جاؤ دوسرا راؤنڈ ہونا چاہئے۔ بے شک زمانہ بدل گیا ہے لیکن میں سیال کوٹ میں رہا ہوں رات کو ہیڈ مرالہ پر شوقیہ ڈبکی لگانے والے جموں کی پہاڑیوں کی طرف دیکھا کرتے تھے جہاں روشنیاں پاکستانیوں کو ایک لمبی فیصلہ کن جست کے لئے اکساتی تھیں میڈیا خواجہ آصف کو بھی ہیڈ مرالہ پر دو تین مرتبہ بڑی چھلانگ لگاتے دکھا چکا ہے کاش ایک ہزار برس پرانا زمانہ ہوتا تو ہم کہتے کہ بے شک بھارت کے وزیر دفاع ہمارے خواجہ صاحب سے تین برس چھوٹے ہیں مگر شاید وہ کاکول اکیڈمی کے سابق کیڈٹ خواجہ آصف کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ ہمارے علامہ اقبال بھی سیالکوٹ کے تھے ہم جیسے ان کے اردو فارسی کلام سے بہت کچھ اخذ کرتے ہیں اور فال بھی نکالتے ہیں اس موقع پر میں نے کلیات اقبال نکالا تو یہ شعر سامنے آ گئے

رومی بدلے،شامی بدلے،بدلا ہندوستان… توبھی اے فرزند کہستان اپنی خودی پہچان ۔۔اپنی خودی پہچان۔۔او غافل افغان

موسم اچھا،پانی وافر،مٹی بھی زرخیز…جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان…اپنی خودی پہچان …او غافل افغان

بات سیدھی ہے کہ اگر افغان وزیر خارجہ نریندر مودی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کو افغان قوم کا ہمدرد سمجھتے ہیں تو یہ اپنی خودی بیچنے کی طرح ہے۔پاکستان افغان کشیدگی میں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ سعودی عرب ، قطر ،ایران ، ترکیہ اورملائشیا بھی افغانستان کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ معاملات کو ایسے مقام پر نہ لے جائے کہ واپسی مشکل ہو جائے۔سیدھی بات ہے کہ یہ باتیں افغانستان کے پشت پناہ بھارت کو سمجھائی جا رہی ہیں ۔یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کا دفاعی حلیف اور دوست چین بھی اپنے طریقے سے یہی بات طالبان کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے، بے شک اس وقت امریکی صدرکی توجہ فی الوقت اور محاذوں پر ہے مگر سبھی جانتے ہیں کہ امریکی جب عجلت میں کابل سے نکلے تھے تو کئی ارب ڈالر کا جدید اسلحہ پیچھے چھوڑ گئے تھے اور اب پاکستانی فوج کے خلاف یہ اسلحہ استعمال ہوتا ہے یا اس کی ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل ہوتی ہے تو امریکی دفاعی ماہرین ہی نہیں اسلحہ ساز کارخانوں کے پردھان بھی مضطرب تو ہوتے ہوں گے۔

تازہ ترین