نیو یارک کا اپنا مزاج ہے اور اس کے مزاج آشنا میرے دوست اسٹیو تھے جو انتقال کر گئے تھے اور تب سے یہ خواہش تھی کہ ان کی قبر پر ضرور جاؤں ۔ا سٹیو کی قبر پر جانے کیلئے پروفیسر پیٹر سینیٹ کے ہمراہ روانہ ہو گیا پروفیسر موصوف اسٹیو کی بدولت ہی میرے شناسا ہوئے تھے میں جب کبھی ماضی میںنیو یارک آیا تو اسٹیو کا ہی مہمان ہواجہاں پر اس کا ہزاروں کتابوں پر مشتمل ذاتی ذخیرہ کتب اس کا سب سے بڑا اثاثہ تھا ۔نیو یارک میں ایک سیاسی ماحول جو دنیا بھر کو متاثر کرتا ہے موجود رہتا ہے جب وہاں پر امریکیوں سے ملاقات ہوتی تو ان کا ایک ہی سوال رہتا کہ جب پاکستان در پردہ افغان طالبان کی مدد ہمارے خلاف کر رہا تھا تو اس وقت اس حوالے سے کیوں غافل تھا کہ افغان طالبان پاکستان کے حوالے سے کچھ بنیادی امور پر وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ظاہر شاہ ، سردار داؤد سے لے کر اشرف غنی تک کا تھا اور وہ اس حوالے سے سر مو انحراف کرنے کا کوئی اقدام نہیں کریں گے ۔ وہاں یہ تاثر تھا کہ پاکستان جو سراج حقانی کی بھرپور مدد کر رہا تھا تو اسکے ساتھ ان متنازعہ امور پر کچھ طے کر کے رکھ چھوڑا ہوگا ،وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان سراج حقانی کی پوزیشن ہر دو گھنٹوں بعد تبدیل کرتا تھا تا کہ وہ ڈرون حملے سے محفوظ رہ سکے ۔ امریکہ میں یہ تصور ہے کہ پاکستان کے پاس اب افغان طالبان کے حوالے سے بس دو آپشنز ہیں یا تو وہ افغان طالبان کے داخلی انتشار سے فائدہ اٹھائے یا افغان طالبان کی حزب اختلاف کو اس طرح ہی مدد فراہم کرے جیسے ماضی میں افغان طالبان کو فراہم کی تھی ،اس کے سواکوئی راہ عمل موجود نہیںجو افغانستان کی جانب سے بلوچستان ، کے پی وغیرہ میں دہشت گردی کو روک سکے بہرحال یہ وہ تصورات ہیں جو وہاں پر پنپ رہے ہیں اور ظاہر ہے ان سب سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
امریکہ میں کچھ افراد جیسے اسفند یار ، ڈاکٹر حسن عباس وغیرہ بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں مگر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ریاست نے ایسا کوئی بندوبست نہیں کیا کہ ان افراد سے مستقل تعلق رکھا جائے جب کبھی اعلیٰ پاکستانی حکام ادھر آئیں تو انکی ان افراد سے ملاقات ضرور ہو، انڈیا نے تو اپنا پورا تھنک ٹینک ادھر کھڑا کر رکھا ہے کہ جب انڈین وزیر اعظم امریکہ آتے ہیں تو وہاں کے لوگوں سے ضرور ملتے ہیں ۔ نیو یارک میں مسلم کمیونٹی اپنی مذہبی اخلاقیات کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے بہت حساس ہوتی جا رہی ہے ۔ اس حوالے سے مجھے معروف صحافی محسن ظہیر نے بتایا کہ الخوئی سینٹر نے مسلم اسکول 1990ءمیں قائم کیا تھا،اس اسکول میں امریکی نصاب کے حوالے سے جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقیات پرتوجہ دی جاتی ہے اور خوش کن امر یہ ہے کہ اس میں تمام مکاتب فکر کے بچوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیںمگر ایک چیز کا احساس اب بڑھ رہا ہے کہ پاکستان کمیونٹی کی نئی نسل کو آہستہ آہستہ پاکستانی امور میں کوئی دلچسپی نہیں رہی یہاں تک کہ وزیر اعظم کے جنرل اسمبلی میں خطاب کے وقت ان کی مخالفت میں جو مظاہرہ ہوا اس میں دس افراد بھی شامل نہیں تھے جبکہ جو حمایت میں ہوا اس میں بھی بمشکل 30، 35 افراد ہونگے ۔
اس لاتعلقی کی ذمہ داری پاکستان کے سفارت خانے اور نیو یارک قونصلیٹ پر ہے لوگ بلکہ امریکی قانون ساز تک کہتے ہیں کہ سفارتخانے کا کوئی مؤثر کردار ہی نہیں ہے ۔قونصلیٹ کے حوالے سے تو ایک قانون ساز نے یہاں تک مجھے کہا کہ اس کو تو بند ہی کردینا چاہئے کیونکہ اس کی کارکردگی پروٹوکول آفس سے زیادہ نہیں اور وہ تو اقوام متحدہ میں بھی قائم کر سکتے ہیں ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بلکہ چیلنجز پر معروف صحافی فیض رحمان نے میرے اعزاز میں تقریب منعقد کی وہاں بھی یہی عرض کی کہ پاکستان کو اپنے امور میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور اس ہدف کو ہر صورت میں حاصل کیا جائے کہ کسی ایک ملک کی دوستی کی وجہ سے ہم دوسرے کی دوستی میں فرق نہ ڈال دیں اور ہمیں اس تصور سے باہر آ جانا چاہئے کہ کوئی ہر قیمت پر ہمارا دوست یا دشمن ہے ۔
اسی طرح سے قاضی منان جو امریکہ میں دو ریسٹورنٹس کے مالک ہیںان جیسے لوگوں کو پاکستان کے بہتر تشخص کیلئے حکومت کو استعمال کرنا چاہئے اسی طرح واشنگٹن میں ڈاکٹر غزالہ جیسی پڑھی لکھی خاتون کو متحرک کرکے پاکستانی کمیونٹی کیلئے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ آصف مصور ، عدنان خان کاکڑ جیسے لوگوں کا دم وہاں غنیمت ہے کہ مذہبی ہم آہنگی ان سے مستفید ہو کر حاصل کی جا سکتی ہے ۔ لیون میں میاں عاطف نے میرے اعزاز میں دعوت دی، اس میں علی شاہ ، خواجہ فاروق ، چوہدری حمید ، صفدر خان، حسن وغیرہ موجود تھے تو کہا تھا کہ ابھی جب پیرس میں تھا تو نادر شاہ سے فرانس میں اسلاموفوبیا پر بات شروع ہو گئی تھی،میں نے نادر شاہ سے کہا کہ ابھی جب میں یہاں لوگوں سے مل رہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی مارچ میں اٹلی اور اسپین کی پولیس نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک مذہبی جماعت سے وابستہ ہیں یہ لوگ یہاں پر کچھ مخصوص افراد کو ہدف بنانا چاہتے تھے اب آپ ہی بتادیجئے کہ ایسے واقعات کے بعد ہمارے پاس کونسا امکان موجود رہتا ہے کہ ہم سختی نہ کریں اور جب ہم سختی کرتے ہیں اور جسکی وجہ بلا شبہ صرف چند افراد ہوتے ہیں تو ہم پر تعصب کا الزام دھر دیا جاتا ہے اگر ایسے واقعات نہ ہوں تو پھر ہم کیوں کسی کو شک کے دائرے میں لائیںگے ؟ یہ بات درست ہے کہ آج کی دنیا میں جب تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو در حقیقت اپنے مؤقف کے مخالفین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا جا رہا ہوتا ہے کہ جو سوائے عاقبت نااندیشی کے اور کچھ نہیں ہوتا ۔