• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سنسان سڑک پر چلتے چلتے ایک شخص کی کار خراب ہو گئی ۔ وہ کار سے اُترا اور نقص معلوم کرنے کیلئے اس نے ابھی بونٹ اُٹھایا ہی تھا کہ قریب سے آواز آئی ” اس کا کار بوریٹر خراب ہے ۔ ‘‘اس نے گھبرا کر آواز کی سمت دیکھا تو ادھر صرف ایک گھوڑا کھڑا تھا۔ اس پر یہ شریف آدمی بہت پریشان ہوا۔اس نے اپنا وہم دور کرنے کیلئے گھوڑے کو تھوتھنی سے پکڑا اور کہا ’’یہ آواز تمہاری تھی ؟ اگر تمہاری تھی تو ذرا پھر سے کہو جو تم نے ابھی کہا تھا ۔‘‘گھوڑے نے پورے سکون سے کہا ” تمہاری کار کا کار بوریٹر خراب ہے۔“اس پر شخص مذکور کی گھگی بندھ گئی اور اس نے مارے خوف کے وہاں سے دوڑ لگا دی ۔ فاصلے پر ایک شراب خانہ تھا۔ وہ بھاگتا ہوا اس میں داخل ہوا اور لمبا سانس لیکر ایک کرسی میں دھنس گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب اسکے حواس بحال ہوئے تو اس نے اپنی برابر والی میز پر بیٹھے ایک شرابی کو مخاطب کیا اور اسے سارا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ یہ واقعہ سن کر شرابی نے اس شخص سے پوچھا ” گھوڑا سفید رنگ کا تو نہیں تھا ؟“ہاں ! یہ سفید رنگ کا تھا !ہاں !’’ اس کی دم کٹی ہوئی تھی ؟“،’’ہاں‘‘،’’اسکی کمر کے دائیں جانب ایک سیاہ داغ بھی تھا ؟“،’’ہاں اس شخص نے ڈری ڈری آواز میں جواب دیا‘‘۔یہ سن کر شرابی نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا پھر تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،اس گھوڑے کو کاربوریٹر کا کچھ پتہ نہیں !“یہ لطیفہ ہم نے سنا تو کافی عرصہ قبل تھا مگر آج کل ہمیں یہ دن میں تین چار مرتبہ یاد آتا ہے۔ یاد کیا آتا ہے یا ر لوگ یاد دلاتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ روز ایک محفل میں ہم مہنگائی کا رونا رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ دالوں نے ناکوں چنے چبوا دیے، وہیں سبزیاں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔ آٹا ، چاول ، گھی، سگریٹ اور چائے بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ اچانک اس گفتگو کے دوران محفل میں موجود ایک ذخیرہ اندوز نے گھور کر ہماری طرف دیکھا اور کہا ” تم نے ایف اے میں معاشیات پڑھی تھی ؟“ہم نے کہا ’’نہیں‘‘پوچھا ” بی اے میں؟“ہم نے کہا ’’نہیں‘‘ بولا ’’ایم اے میں؟“ہم نے جواب دیا "نہیں ؟“یہ سن کر اس ذخیرہ اندوز نے قہقہہ لگایا اور اہل محفل سے مخاطب ہو کر کہا ’’تم لوگوں کو مہنگائی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، اس شخص کو معاشیات کا کچھ پتہ نہیں !‘‘اسی طرح چند روز قبل ہم نے ایک مولوی صاحب کی تقریر سنی۔ اس تقریر کے دوران ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ اپنی اس ایک گھنٹہ کی تقریر کے دوران انہوں نے مسلمانوں کی اتنی کثیر تعداد کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا کہ خدشہ تھا مزید آدھ گھنٹہ اگر انہوں نے اورتقریر کی تو اس اکثریت والے خطے میں مسلمان اقلیت میں رہ جائیں گے۔ چنانچہ ہم نے گھبرا کر اپنے برابر کھڑے ان مولوی صاحب کے ایک عقیدت مند سے فریاد کی اور کہا’’ موقع ملے تو حضرت صاحب کو سجھائیے کہ ایسے اختلافی مسائل میں اتنے حتمی فتوے صادر کرنے سے مسلمانوں میں افتراق پیدا ہوتا ہے! ہماری یہ بات قریب کھڑے کچھ اور لوگوں نے بھی سن لی اور انہوں نے ڈرتے ڈرتے ہماری تصدیق میں سر ہلایا۔ اس پر مولوی صاحب کے اس عقیدت مند نے ہمیں مخاطب کر کے پوچھا تم نے کسی عالم کے آگے زانوئے تلمذ تہ کر کے قرآن کی تفسیر پڑھی ہے؟“ہم نے کہا ”نہیں“پوچھا ” حدیث پڑھی ہے؟“ہم نے کہا ”نہیں“بولا ”فقہ پڑھی ہے؟“ہم نے کہا ”نہیں“اس پر اس نے قہقہہ لگایا اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا ’’تمہیں اس شخص کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس شخص کو دین کا کچھ پتہ نہیں ۔“یہ گھوڑے اور کار بوریٹر والا لطیفہ ہمیں اس وقت بھی یاد آیا تھا جب ایک جلسے میں ایک مقرر اپنی جماعت کے علاوہ باقی جماعتوں کو پاکستان دشمن قرار دینے پر تلا ہوا تھا۔ ہم اس تقریر کے دوران تلملاتے رہے۔ بالآخر ہم سے نہ رہا گیا چنانچہ ہم نے وہاں کھڑے لوگوں سے کہا ’’ اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرنا فخر کی بات ہے، لیکن کسی کو غدار قرار دینے سے قبل کم از کم ایک ہزار مرتبہ سوچنا چاہیے ؟‘‘اس پر ایک کارکن نے گھور کر ہماری طرف دیکھا اور کہا ”قیام پاکستان کے وقت تمہاری عمر کتنی تھی ؟“ہم نے کہا ” چار سال‘‘پوچھا’’ تم کسی جلوس میں شریک ہوئے تھے؟‘‘ہم نے کہا ”نہیں“پوچھا ” لاٹھی وغیرہ کھائی تھی ؟“ہم نے جواب دیا ”نہیں“اس پر اس نے قہقہہ لگایا اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا تمہیں اس کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، اس شخص کو محب وطن اور غیر محب وطن کا کچھ پتہ نہیں !“سو یہ لطیفہ جو ہم نے کالم کے آغاز میں سنایا تھا ایسے ہی مواقع پر دن میں کئی مرتبہ ہمیں یاد آتا ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا یاد کیا آتا ہے یار لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں۔چنانچہ رفتہ رفتہ خود ہمیں یہ یقین ہونے لگا ہے کہ ہم واقعی گھوڑے ہیں اور ہمیں کاربوریٹر کا کچھ پتہ نہیں، بلکہ اب تو ہمیں شبہ گزرنے لگا ہے کہ ہم گھوڑے بھی نہیں بلکہ گدھے ہیں اور ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں !اب آخر میں ایک غزل

میری دنیا میں کیا رہا باقی

ایک میں ہوں مرا خلا باقی

بھوت بھی ہیں یہاں چڑیلیں بھی

دل میں جنگل ہی رہ گیا باقی

وہ بھی کر لو کہ رہ نہ جائے کہیں

کوئی شکوہ کوئی گلہ باقی

جو بھی تھا دل میں سب اگل ڈالا

ہے ابھی زہر کچھ بچا باقی؟

وہ کوئی اور تھا یا میں کوئی اور؟

عمر بھر کا یہ سوچنا باقی

کعبہء دل کے بت گرا ڈالے

اک وہی تھا جو رہ گیا باقی

نام ہو یا مقام بے معنی

ایک نام خدا سدا باقی

وہ تو دل سے نکل گیا ہے عطا

تیرے سینے میں دل رہا باقی؟

تازہ ترین