آج میں جب کالم لکھنے بیٹھا تو سوچا کہ اگر کراچی ائرپورٹ کے حالیہ سانحے پر لکھتا ہوں تو ہمارے جہازوں کی پروازمیں کوتاہی کی بجائے ہمارے سیاسی قائدین کی معصومیت اور اپنی جگ ہنسائی میں خواہ مخواہ کا اضافہ ہوجائےگا۔ دل کو تسلّی دی کہ ایسا کونساپہلی بار ہوا ہے۔ یہ تماشہ تو ہماری تفریحِ طبع کےلیے بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ اگر شمالی وزیرستان کے حالیہ’’ ضرب عضب‘‘ پر قلم اٹھاتا ہوں تو خدشہ ہے کہ عوام اور افواج کا مضبوطی سے اٹھا ہوا قدم کہیں کمزور نہ پڑ جائے۔ بد قسمتی سے آج کل قوم سانحہ لاہور براستہ ماڈل ٹائون کی بربریت سے دوچار ہے۔ اگر اس سانحے پر لکھوں بھی تو کیا خاک لکھوں۔ بس وہی لکھوں جو ایسے قومی سانحوں میں سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے مثلاً سانحہ پر حکومتِ وقت کوبے حد افسوس ہوا، حکومت نے سخت نوٹس لے لیا، قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ ہوا، جرم کا ارتقاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی، لاشوں پر سیاست بند کی جائے اور سیاست پر لاشیں مت گرائی جائیں،انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو وغیرہ وغیرہ پھر کمیشن بٹھیں جو اٹھنے کا نام نہ لیں اور اس کے بعد کیا ہو؟ فقط نئے سانحے کا انتظار!
قارئین کرام! قلم نے تو جنبش کی مگر یہ کچھ لکھنے کو دل نہیں مانا اسی لمحے مجھے اعظم باجوہ کا خیال آیا جنہوں نے گذشتہ سال مجھے سماجی مسائل پر لکھنے کامشورہ دیا تھا۔ میں نے حامی تو بھر لی مگر لکھنے کی کوشش اس لیے نہ کی کہ ہمارا سماج، اناج کے حصول میں مشغول ہونے کے ساتھ ساتھ سماج دشمن سے اتنا گھرا ہوا ہے کہ اس کے سماجی مسائل پر لکھنا خام خیالی سے کم نہیں البتہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیاکے توسّط سے گذشتہ ایک ہفتے سے گلوبٹ ہمارے اوسان پر سوار ہے جس کی تشہیر نے یہ موقع فراہم کیا کہ میں اس سانحے کی بجائے اُن کے نام کے سماجی پہلو پر روشنی ڈالوں ۔اِن کے اصل نام کا توعلم نہیں مگر ان کو پیار سے گُلوکہتے ہیں۔ یہ فرد کی شناخت ظاہر کرتی ہے جس سے مجھے غرض نہیں میں اس کی بجائے اُن افراد کا سماجی احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا جن کے القاب کی نمائندگی گُلوبھائی کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اور خاص طورپر معلوماتی کتاب(ORIGIN OF NICKNAMES) کے مطابق ایسے القاب پیار، تضحیک اورادائیگی کی آسانی کےلیے رکھے جاتے ہیں۔ یہ نام شکل و صورت،حال حُلیے اورشخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔جہاں تک لمبے ،مشکل اور سادہ ناموں کا تعلق ہے تو بھلے وقتوں میں والدین کے رکھے ہوئے ایسے ناموں کو ہم نے بڑے ہوتے ہی بڑی خوبصورتی سے مخفف کرلیا مثلاً اللہ دتہ ’’اے ڈی‘‘ ہوئے، بشیر چوہان ’’بی سی‘‘ ہوئے پھر اسی طرح خداداد ’’کے ڈی‘‘، غلام رسول ’’جی آر‘‘ ،چوہدری عبدالمجید ـ’’سی اے مجید‘‘ ، اللہ دین اظہر ’’اے ڈی اظہر‘‘، اللہ بخش خدا بخش فقط’’ اے کے برو ھی‘‘ ہوئے۔ اس کے بر عکس آج کل کے والدین خاصے سمجھدار اور جدت پسند ہیں جنہوں نے اولاد کے آسان نام رکھ کر ان کے لیے آسانی پیدا کر دی۔ شکل وصورت اور حال حُلیے سے مناسبت رکھتے ہوئے نام آج بھی وہی ہیں جو ہمارے وقتوں میں ہوا کرتے تھے مثلاً گنجا، موٹا، کالیا، چوہا،کرلی، ڈنگر، گنا، مچھر،ٹچِ وغیرہ وغیرہ۔ مگرآج کے سماج میں کچھ ایسے نام ہیں جو ہمارے دور میں قطعاً نہ تھے مثلاً راکٹ لانچر،پستہ گرنیڈ، ٹارگٹ، کالا ناگ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے نامی گرامی نام یقیناً ہمارے موجودہ معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے رجحانات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان ناموں کے پیچھے چُھپے ہوئے انسان اس معاشرے میں ناسور کی صورت میں بستے ہیں جن کی آبیاری، پرورش اور تحفظ کئی سیاسی، سماجی اور مذہبی قائدین ہی کرتے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے والدین جب اپنی اولادوں سے ناراضی کا اظہار کرتے تھے توصرف ’’ الّو ‘‘ کہا کرتے تھے اورغلطی کو دہرانے کی صورت میں الّوکے ساتھ ’’ پٹھا ‘‘ بھی لگایا کرتے تھے مطلب یہ ہوا کہ وہ صرف اپنی اولادوں کو ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے تھے بلکہ اپنے آپ کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ میرے نزدیک یہ ’’ گُلّوبٹ ‘‘ نہیں بلکہ ’’ گلّوپٹھا ‘‘ ہے۔ اس قسم کے گلّووں کو پالنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہی بنتی ہے یعنی ہمارے وقتوں کا الّو آج کا گُلو ہے۔ حقیقت میں تو یہ نام کے بجائے Mind set ہے ان لوگوں کا جو اس قسم کے اشخاص کی پشت پناہی اور پرورش کرتے ہیں۔ ہمیں ہر حال میں ان کا احتساب کرنا ہوگا۔ آخر میں سیدضمیرجعفری کے دو اشعارپیش خدمت ہیں:
نام اگر دیکھو تو کس شجرے میں نام آتا نہیں
کام اگر پوچھو تو کوئی خاص کام آتا نہیں
کچھ ہنر کچھ جستجو کچھ سعی اے نورِ نظر
صرف اِک پتلون کس لینے سے کام آتا نہیں
آپکا ضمیر