• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری عمر کا زیادہ تر حصہ ادیبوں کے ساتھ گزرا ہے۔چنانچہ میں شروع شروع میں محسوس کرتا تھا یہ لوگ اپنی تحریروں میں جتنے سنجیدہ نظر آتے ہیں شاید اصلی زندگی میں بھی ایسے ہی ہوں گے مگر یہ تاثر ابتدائی تھا بعد میں جب میرا شمار بھی ادیبوں میں ہونے لگا تو احساس ہوا کہ ہر انسان کے اندر کہیں ظاہر تو کہیں باطنی ظرافت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے اور یہ بات صرف ادیبوں میں نہیں زندگی کے تمام شعبے سے منسلک افراد میں کہیں کم اور کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔ کبھی تنہائی میں ان کے چٹکلے یاد آتے ہیں تو وہ دن اگر بور گزرا ہو تو ساری بوریت دور ہو جاتی ہے۔

احسان دانش اپنے چہرے مہرے سے جتنے سنجیدہ نظر آتے تھے عملی زندگی میں ایسے نہیں تھے۔ان سے ملنے والے ہی اگر ان کے ہم مرتبہ ہوتے یا ویسے ہی ان کی شفقت کے زیر اثر ان سے لبرٹی لے جاتے یہ معاملہ طرفین کی طرف سے یکساں ہو جاتا۔ میں شاید یہ واقعہ دہرانے لگا ہوں کہ اختر شیرانی کے صاحبزادے ان کے پاس آئے اور کہا مشاعرہ ہے،آپ نے چلنا ہے۔مشاعروں کی بہتات سے تنگ آئے ہوئے سینئر شعراء ایسے مواقع پر کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں سو احسان صاحب نے بھی بڑی ملائمت سے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ اختر شیرانی کا بیٹا مجھ سے کوئی فرمائش کرے اور میں ٹال دوں مگر مسئلہ یہ ہے کہ مشاعرے کی جو تاریخ تم بتا رہے ہو اس تاریخ کو میں ملتان میں ہوں گا اس پر شیرانی کے صاحبزادے نے کہا قبلہ! مشاعرہ بھی ملتان ہی میں ہے۔ہمارے ایک مرحوم شاعر تھے جہاں بیٹھتے وہیں سو جاتے اور ’سادہ ‘ نہیں سوتے تھے باقاعدہ خراٹے بھی لیتے تھے۔ایک مشاعرے میں ایسا ہی ہوا مشاعرہ ٹی وی پر نشر ہونا تھا۔موصوف وہاں بھی سو گئے احسان صاحب نے دیکھا تو مجھ سے کہنے لگے ’’اسے دیکھ رہے ہو‘‘’’میں نے کہا جی دیکھ رہا ہوں ‘‘ پوچھا ’’ کیسا لگ رہا ہے ‘‘پھر خود ہی کہنے لگے ایسا لگتا ہے جیسے کسی بھینسے کو گولی لگی ہو اور اس طرح کی گفتگو دوران مشاعرہ جاری رہتی تھی۔

ایک دفعہ بتانے لگے احمد ہمیش کچھ دن یا کافی عرصہ ان کے ہاں ٹھہرارہا تھا اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہتا تھا جب وہ واپس گیا تو پتہ چلا جس دیوار سے وہ ٹیک لگا کے بیٹھتا تھا اس حصے کا پلستر کھاتا رہا ہے۔احسان صاحب ’’چھوڑتے‘‘ بھی بہت تھے ایسی ایسی گپ پکا منہ بنا کر یوں سناتے جیسے واقعی ایسا ہوا ہو۔ایک دن مجھ سے کہنے لگے جوانی میں مجھے شکار کا شوق تھا ایک دن شیر کا شکار کرنے کو جی چاہا میں نے آدھا کلو افیم ساتھ رکھی اور اس رستے میں رکھ دی جدھر سے شیر گزرتا تھا ۔شیر شاید بھوکا تھا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ آدھا کلو افیم کھا گیا اس نے بے ہوش تو ہونا ہی تھا میں نے اپنی بندوق سیدھی کی نشانہ تو اچھا تھا ہی شیر نے افیم بھی کھائی ہوئی تھی بے ہوش پڑا تھا پھر بھی میں نے ایک کی جگہ تین چار فائر کیے شیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ایک جملہ انہوں نے احمد ندیم قاسمی پر بھی کسا تھا مگر وہ قابل بیان نہیں ۔

بڑے غلام علی خاں شاید اور ساتھ میں عاشق علی خان تھے۔ریڈیو پر آٹھ بجے ان کا پروگرام تھا۔ دونوں استاد آٹھ سے ذرا پہلے پہنچ گئے۔انتظامیہ نے کہا ابھی آٹھ بجنے میں کچھ وقت باقی ہے تو وقت گزاری کے لیے کچھ اور نشر کیا جائے ریڈیو والوں نے اپنے ستار نواز سے کہا کہ آٹھ بجے تک کوئی دھن بجا کر وقت پورا کرو اور وہ ستار بجانے لگا ایک تو وہ بیچارہ بہت ماہر نہیں تھا پاس اساتذہ فن بیٹھے تھے اس بیچارے سے خفیف سے غلطی ہوئی تو دوسرے استاد نے غلام علی خاں سے پوچھا یہ کیا بجا رہا ہے غلام علی نے جواب دیا ’’ یہ آٹھ بجا رہا ہے ‘‘

ایک دفعہ حفیظ جالندھری کا ریڈیو کا چیک لیٹ ہوا تو خود لینے چلے گئے اور کیشئر سے کہنے لگے تم نے کیا سمجھا تھا میں مر گیا ہوں پھر اپنے مخصوص انداز میں ٹھینگا دکھاتے ہوئے کہا’’میں نے ابھی کوئی نئیں مرنا‘‘ کراچی میں ایک صاحب تھے انہیں آغا آغا کہتے تھے شنید ہے کہ پرلے درجے کے بھولے بھالے تھے ایک دفعہ ’’الف نون ‘‘ والے کمال احمد رضوی کار میں خود بیٹھے رہے اور آغا کو ایک میڈیکل اسٹور پر بھیجا کہ مانع حمل گولیاں لے کر آؤ آغا نے دیکھا رش زیادہ ہے دکاندار سے کہا بھئی جلدی کرو۔کمال رضوی بتاتے تھے کہ کچھ دیر بعد دکان سے کوئی گاہک نکلے انہیں دیکھ کے مسکرا ئے اور پھر دکان میں واپس چلا جائے۔آغا آیا تو کمال احمد رضوی نے پوچھا اتنی دیر کیوں لگا دی اس نے جواب دیا ابھی تو اور دیر لگنا تھی وہ تو میں نے کہا کمال احمد رضوی گاڑی میں بیٹھے انتظار کر رہے ہیں انہیں فوری ضرورت ہے تب اس نے آپ کا نام سن کر باقی گاہکوں کو چھوڑ کر مجھے فارغ کیا۔ اللہ مغفرت کرے میرے سارے مرحوم دوستوں کی۔

ان میں سے ناصر زیدی نے جب کراچی جانا ہوتا تو رستے میں جس شہر میں ریڈیو اسٹیشن ہوتا۔وہاں رک کر تین چار پروگرام ریکارڈ کروا کر ان کے چیک بنوا کر پھر آگے جاتے ایک دفعہ کراچی گئے وہاں تو آئے روز مشاعرے ہوتے تھے۔ایک مشاعرے کی نظامت میرے بہت پیارے دوست جمال احسانی جو جملے بازی میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے ،کر رہے تھے ۔ناصر زیدی شامل مشاعرہ تھے اور شہر کے کتنے ہی مشاعرے بھگتا چکے تھے۔ناصر زیدی کی باری آئی تو جمال نے اعلان کیا اب لاہور سے تشریف لائے ہوئے مستقل مہمان شاعر ناصر زیدی کو زحمت کلام دوں گا۔ اب جمال احسانی کا ایک شعر بھی سن لیں جو میرے نزدیک اچھے شعر کی بنیادی شرط ہے

جمال کھیل نہیں ہے کوئی غزل کہنا

کہ ایک بات بتانی ہے اک چھپانی ہے

تازہ ترین