• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شرم الشیخ میں بائیس عرب اسلامک اور یورپین ممالک کی موجودگی میں امریکی صدرٹرمپ کے غزہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں تو پوری دنیا میں اس امن معاہدے کی تحسین کی جارہی ہے۔اس معاہدےسے نہ صرف دو برسوں سے جاری غزہ وار رک گئی ہے بلکہ اسرائیل کے 20یرغمالی اور بدلے میں رہا ہونیوالے 1966فلسطینی قیدی اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے نام لے لے کر تمام شریک ممالک کا شکریہ ادا کیا، بالخصوص عرب جمہوریہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کا جنہوں نے اس عالمی اجلاس کی ٹرمپ کیساتھ مشترکہ میزبانی کی۔ ٹرمپ نے قطر ، عرب امارات، ترکیہ کے ساتھ جارڈن اور سعودی عرب کے کراؤن پرنس کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا۔ٹرمپ نے اعلان کیا کہ غزہ جنگ ختم ہوچکی ہے اس وقت انسانی امداد کے سینکڑوں ٹرک خوراک ادویات اور دیگر سامان لیے غزہ میں داخل ہورہے ہیں۔ آج ہم نے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اب تعمیر نو کا عمل شروع ہوگا ہم ایسے خطے کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو مضبوط مستحکم خوشحال اور دہشت گردی کی راہوں کو ابدی طور پر مسترد کرنے والا ہوگا ہم نے وہ کام کیا ہےجسکے بارے کہاجارہا تھا کہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز مڈل ایسٹ سے ہوگا، ہم نے اس سوچ کو غلط ثابت کردیا ہے۔اس معاہدے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اصل متحارب اسرائیل اور حماس موجود نہیں تھے، معاہدے کی دستاویز پر دستخط کرنے یا ذمہ داری لینے والوں میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ترک صدر طیب اردوان، مصری صدر جنرل السیسی اور قطری امیر شیخ تمیم شامل تھے۔ واضح ہےکہ اسرائیل کو اگر کوئی اس معاہدے پر مجبور کرسکتا تھا تو وہ امریکی صدر ہے۔ اسی طرح غزہ میں حماس کو اگر کوئی قائل کر سکتے ہیں تو وہ خود عرب ممالک ہیں ۔یہی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مصری صدر السیسی ، قطر کے امیر شیخ تمیم اور ترکیہ کے صدر اردوان نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے اور یہ سب کچھ امریکا کے عالمی اتحادیوں کی موجودگی میں کیا۔ مدعا واضح تھا کہ اب اگر حماس نے کوئی حرکت کی تو عرب اسلامک ممالک امریکی ویسٹرن الائیز کی معاونت سے انہیں کنٹرول کرینگے اس حوالے سے زیادہ رول خود امریکی صدرکا ہوگا،معاہدے کی شق نمبر 9 کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ’’غزہ کو ایک عبوری ٹیکنیکل فلسطینی کمیٹی کے تحت چلایا جائیگا جو غیر سیاسی ہوگی اس کمیٹی میں فلسطینی اور بین الاقوامی ماہرین شامل ہونگے جسکی نگرانی ایک نیا عالمی ادارہ ”بورڈ آف پیس“کرئیگاجسکے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ ہونگے جبکہ وہ اپنی سہولت کی خاطر دیگر عالمی رہنماؤں جیسے کہ ٹونی بلیئر یا جسے وہ بہتر سمجھیں اس کا تعاون لے سکیں گے یہ’’بورڈ آف پیس‘‘ غزہ کی تعمیر نو کیلئے فریم ورک اور فنڈنگ فراہم کرئیگا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل کرکے اس کا کنٹرول نہ سنبھال لے‘‘۔ شق نمبر10 اور گیارہ میں وہ تفصیلات ہیں جنکے مطابق ٹرمپ ایک اقتصادی ترقیاتی منصوبہ متعارف کروائیں گے جسکی تفصیل یہ ہے کہ مڈل ایسٹ کے جدید شہروں کی طرز پر غزہ کی تعمیر نو کرتے ہوئے عوام کیلئے روزگار کے مواقع پیداکیے جائیں گے۔ آرٹیکل چھ کے مطابق حماس کو پوری طرح غیر مسلح ہونا پڑئیگااور درویش کی نظروں میں اصل تنازع اسی ایشو پر پڑے گا۔ حماس والے جونہی اس حوالےسے مزاحمت کرینگے تومعاہدے کی مطابقت میں ان کیخلاف ٹرمپ کی نگرانی میں عسکری کارروائی کی جائیگی بشمول ترکیہ عرب اسلامک ممالک اس مرحلے پر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔اس سلسلے میں شرم الشیخ کے عالمی اجلاس میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی تقریر بڑی اہمیت کی حامل ہے جنہوں نے اپنی اس تمامتر عرب کاوش کا کریڈٹ سابق مصری صدر انورالسادات کو دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے شہید صدر نے 1977ء میں اس حوالے سے کاوشیں شروع کردی تھیں پھر کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی مطابقت میں انہوں نے 1979ء میں خود یروشلم پہنچ کر اسرائیل کیساتھ امن معاہدہ کی بنیادیں رکھیں ۔

13اکتوبر کے روز شرم الشیخ کانفرنس میں آنے سے پہلے صدر ٹرمپ نے اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ میں جو تاریخی خطاب کیا مڈل ایسٹ کی تازہ صورتحال کو سمجھنے اور آنے والے ماہ و سال کا ادراک کرنے کیلئے ٹرمپ کے اسرائیلی کینسٹ سے خطاب میں پنہاں پوائنٹس سے بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاہو بار بار یونہی نہیں کہہ رہے کہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑا اسرائیل کا دوست کوئی نہیں آیا انہوں نے ہمارے لیے جدوجہد کا حق ادا کردیا ۔ ہم ٹرمپ پر لاکھ تنقید کریں مگر ان کی اس صلاحیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اسرائیل کے اعتماد پر پورے اترے ۔ اسی طرح اپنے عرب اتحادیوں کو مطمئن کرتے ہوئے انہیں بھی پوری طرح ساتھ لے کر چل رہے ہیں، جہاں نیتن یاہو سے معافی منگوانا پڑتی ہے اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس موقع پر بھی ان کی منشا یہ تھی کہ وہ نیتن یاہو کو اپنے ساتھ بٹھا کر شرم الشیخ لے آتے اپنے عرب اتحادیوں سے ان کی ملاقات یا بات چیت کا موقع پیدا کرتے مگر اپنے ترک اتحادی اور فرینڈ اردوان کی خوشنودی کا خیال کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اس اقدام کو مؤخر کردیا۔ اس موقع پر امریکی صدر نے پاکستان اور اس کےپرائم منسٹر شریف اورفیلڈ مارشل کو جو اہمیت دی وہ تاریخی تھی جو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ انہوں نےپاکستانی پرائم منسٹر کو خطاب کی دعوت دی اور پھر جو کچھ انہوں نے کہااس کی توقع شاید ٹرمپ خود بھی نہیں کررہے تھے،ٹرمپ کی خوشی دیدنی تھی البتہ اپنے دوست انڈیا کا ذکر کرتے ہوئےانہوں نے یہ ضرور کہا کہ میں آپ دونوں ممالک کے اچھے تعلقات چاہتا ہوں۔ شہبازشریف کے اس فی البدیہہ خطاب نے گویا میلہ لوٹ لیا ایسے کہ ویسٹرن طاقتور ممالک کے سربراہان بھی انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

تازہ ترین