محبت کیا ہے، وفا کیا ہے، جرم کیا ہے، سزا کیا ہے۔ سینکڑوں سال سے ہم انسان اِن مسائل پر بحث کر رہے ہیں، سوفوکلس سے لیکر دوستوفسکی تک اور ہومر سے لیکر غالب تک، ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں نے اِن موضوعات پر لاجواب ڈرامے، نظمیں، غزلیں، افسانے اور ناول لکھے ہیں۔ ویمبراں کی مصوری ہو یا ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی، برٹرینڈ رسل کا فلسفہ مسرت ہو یا رومی کی شمس تبریزی سے محبت، یہ موضوعات آج بھی زندہ ہیں اور اِن کی تازگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اِس دنیا میں اربوں انسان بستے ہیں اور ہر انسان کی کہانی دوسرے سے مختلف ہے، ہر روز نئی کہانیاں تخلیق ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی جولیس روزنبرگ اور ایتھل روزنبرگ کی بھی ہے۔ جولیس اور ایتھل روزنبرگ، دونوں ہی امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن تھے، 1940 میں جولیس کو امریکی فوج میں بطور سویلین انجینئر ملازمت ملی اور یہاں سے اِس جوڑے نے مل کر امریکی فوجی راز سوویت یونین کو فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ کہانی کا اہم موڑ اُس وقت آیا جب ایتھل کا بھائی، جو امریکی ایٹم بم بنانے کے خفیہ ”مین ہٹن پروجیکٹ“ میں تعینات تھا، اس نیٹ ورک کا حصہ بن گیا، اُس نے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق انتہائی حساس معلومات روزنبرگ جوڑے کو دیں، جنہوں نے یہ معلومات ہیری گولڈ نامی ایک شخص کے حوالے کیں جس نے یہ ایٹمی راز نیویارک میں سوویت یونین کے قونصل خانے تک پہنچا دیے۔1945ءمیں جولیس کو کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت کے بارے میں جھوٹ بولنے پر فوج سے برطرف کر دیا گیا۔ چند سال بعد ہیری گولڈ پکڑا گیا، جس کے بعد جولیس اور ایتھل روزن برگ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔1951 میں روزنبرگ جوڑے پر جاسوسی کی سازش کا مقدمہ شروع ہوا جس کا سب سے ڈرامائی اور تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ استغاثہ کا مرکزی گواہ کوئی اور نہیں بلکہ ایتھل کا اپنا سگا بھائی تھا، اُس نے اپنی بہن اور بہنوئی کیخلاف گواہی دی۔ جوڑے کو مجرم قرار دیا گیا انہیں سزائے موت سنا دی گئی اور بالآخر روزنبرگ جوڑے کو نیویارک میں بجلی کی کرسی سے باندھ کر موت کی سزا دے دی گئی۔ جنہیں یہ دیکھنا ہو کہ بجلی کی کرسی پر کس اذیت ناک طریقے سے موت کی سزا دی جاتی ہے وہ ٹام ہینکس کی فلم دی گرین مائل دیکھ لیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد خفیہ دستاویزات سامنے آئیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ جولیس روزنبرگ واقعی جاسوسی میں ملوث تھا۔
لیکن یہ کہانی صرف جاسوسی اور ملک سے غداری کی نہیں، یہ جولیس اور ایتھل کی محبت کی کہانی بھی ہے۔ قید کے دوران اِس جوڑے نے ایک دوسرے کو جو محبت بھرے خطوط لکھے وہ بعد ازاں لندن سے شائع ہوئے، فیض احمد فیض نے وہ خطوط پڑھے اور متاثر ہو کر اپنی شہرہ آفاق نظم لکھی، ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ایک خط میں جولیس نے ایتھل کو لکھا کہ ”میں مسلسل تمہارے بارے میں سوچتا ہوں، مجھے تمہاری شدید چاہت ہے، میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے، ایک بہت بڑا دکھ، جس کا مطلب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ میں تم سے اپنے وجود کے ہر ذرے سمیت محبت کرتا ہوں۔ میں بار بار صرف یہی دہرا سکتا ہوں کہ تمہارا خیال، وہ تمام خوشیاں جو تم نے ایک بیوی کے طور پر مجھے دیں، اس موجودہ کرب کی تلافی کرنے کیلئے کافی ہی نہیں بلکہ کہیں بڑھ کر ہیں۔ میری جان، میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا، تم مجھے بہت عزیز ہو۔“ ایسا ہی خط بیوی نے بھی شوہر کو لکھا: ”میرے پیارے جولیس، اگرچہ اُس دن جب ہم عدالت گئے تھے، ہمیں ایک ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا، لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ بہت سی ایسی باتیں تھیں جو میں شاید کہہ سکتی تھی۔ تو اب میں وہ باتیں کہنا چاہتی ہوں۔ لیکن میں کبھی بھی اپنے جذبات کا مکمل اظہار نہیں کر سکوں گی۔ مجھے تم پر کتنا فخر ہے، کس قدر محبت ہے اور تمہارے لیے کتنا احترام ہے۔ میرے اندر یقین اور خوشی کا ایک ایسا دائمی احساس ہے اور ہماری زندگیوں کے بھرپور معنی کا ایسا پختہ ایمان ہے کہ میں اچانک تم سے ملنے، یہ سب کچھ کہنے اور تمہیں دل کی گہرائیوں سے چومنے کی شدید خواہش میں مبتلا ہو جاتی ہوں۔ جانِ من، ہمیں اپنے خطوط میں ایک دوسرے کیلئے اپنے تمام جذبات کا اظہار کرتے رہنا چاہیے۔ تاہم، رابطے کیلئے صرف اسی ذریعے کا ہونا کس قدر مایوس کن ہے۔ گزشتہ بدھ بھی اب بہت دور کی بات لگتی ہے اور میں اگلی ملاقات کا انتظار نہیں کر سکتی۔“
مگر یہ کہانی صرف محبت کی نہیں بلکہ اپنے نظریات سے جُڑے رہنے کی بھی ہے۔ روزنبرگ کمیونسٹ نظریے کے پیروکار تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ امریکی سرمایہ داری نظام کے مقابلے میں مزدور طبقے کے عالمی اتحاد کو درست سمجھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے نظریے کے ساتھ وفاداری کرنا جسے وہ انسانیت کی بھلائی کا ضامن بھی سمجھتے ہوں، ٹھیک ہے، یا اُس ملک کیساتھ جس نے انہیں شہریت دی تھی؟ یہ ایک اخلاقی معمہ ہے۔ شاید روزنبرگز نے اپنے دفاع میں یہ دلیل نہیں اپنائی کیونکہ اُس صورت میں انہیں اعتراف جُرم کرنا پڑتا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک فرد کی زندگی زیادہ مقدس ہے یا ریاست کی سلامتی؟ کیا قومی سلامتی کے نام پر انصاف کے بنیادی اصولوں کو پامال کیا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج بھی لوگ اپنی ریاستوں سے پوچھتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک جولیس اور ایتھل روزنبرگ کی اصل کہانی اُنکی لازوال محبت ہے جو وہ حقیقتاً آخری وقت تک نبھاتے رہے جب تک کہ انہیں برقی کُرسی پر بٹھا کر موت کے منہ میں دھکیل نہیں دیا گیا۔ استغاثہ کا خیال تھا کہ موت کا خوف ان میں سے کسی ایک کو توڑ دے گا اور وہ دوسرے کیخلاف گواہی دیدے گا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ خاص طور پر ایتھل، جس کیخلاف ثبوت انتہائی کمزور تھے، اگر وہ اپنے شوہر کیخلاف بیان دے دیتی تو شاید بچ جاتی، لیکن اس نے خاموشی کو ترجیح دی۔ اُنکے جیل سے لکھے گئے خطوط اُنکی گہری محبت اور ایک دوسرے کیلئے انکی چاہت کا ثبوت ہیں، بجلی کی کرسی تک ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رکھنے کی اُن کی آخری خواہش....ریاست نے اُنکی جان تو لے لی مگر ایک دوسرے سے اُنکی وفاداری اور محبت ختم نہ کر سکی۔ روزنبرگ مقدمہ صرف سرد جنگ کا ایک سیاسی باب نہیں، بلکہ محبت، نظریے اور ریاستی جبر کی ایک لازوال داستان ہے۔ یونہی تو فیض نے نہیں کہا تھا کہ ”تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم، دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے، تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم، نیم تاریک راہوں میں مارے گئے۔“