• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈیا والے اکثر پاکستانی گیتوں کی دُھنیں اور شاعری چوری کرتے رہتے ہیں۔یہ کام ہمارے ہاں بھی ہوتاہے لیکن حیرت انڈیا والوں پر ہے جہاں قدم قدم پرموسیقی کے استادموجود ہیں، اتنی بڑی فلم انڈسٹری ہے لیکن پھر بھی پاکستانی گیت چوری کرنے سے باز نہیں آتے۔آپ انڈیا کی فلموں کے معروف گیتوں کی بھی کھوج کریں تو اُن میں بھی کسی نہ کسی غیر ملکی گیت کی خوشبو آنا شروع ہوجاتی ہے۔اس موضوع پر ہمارے مایہ ناز فلم ڈائریکٹر اور سراپا تخلیق کار شعیب منصور صاحب بہت عرصہ پہلے ٹیلی ویژن پرایک پروگرام بھی ڈائریکٹ کرچکے ہیں۔حال ہی میں یوٹیوب پرایک کلپ دیکھا جس میں شعیب منصور صاحب کے ہی بنائے ہوئے معروف گیت’دل دل پاکستان‘ کی دُھن کو انڈیا والوں نے کاپی کیا ہوا تھا۔مجھے یاد ہے ’دل دل پاکستان،14اگست 1987کو سرکاری ٹی وی سے نشر ہوا تھا۔نغمہ نگار نثار ناسک، مرکزی گلوکارجنید جمشید اور ڈائریکٹر شعیب منصور تھے۔یہ ملی نغمہ ضیاء الحق کے گھٹن سے بھرپور دور میں چلا تھا جس میں نوجوان مغربی لباس میں ملبوس کتابیں بھی پڑھتے نظر آتے ہیں ا ور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں۔مجھے فخر ہے کہ شعیب منصور صاحب سے میری تقریباً ہر ہفتے ملاقات ہوتی ہے جس میں اجمل شاہ دین صاحب، آصف عقیل،یاسرپیرزادہ اور قمرراٹھور صاحب بھی موجود ہوتے ہیں۔ شعیب صاحب آج بھی پوری طرح چاق چوبندہیں۔ قندھاری نان کے ساتھ چنے بہت شوق سے نوش فرماتے ہیں بلکہ ایک نئی فلم کے پراجیکٹ پر کام بھی کر رہے ہیں جو بالکل ایک نئے اور دلچسپ سبجیکٹ کی کہانی ہے۔ آپ صاحب ذوق اور صاحب دل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ’صاحب کردار‘بھی ہیں۔انڈیا نے ان کے معروف گیت پر ہاتھ صاف کیا تو ان کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی بلکہ چہرہ مزید مسکراہٹ سے بھر گیا۔ایسی باتوں پر ہنساہی جاسکتا ہے۔ویسے بھی کاپی ہمیشہ بڑے انسان کی ہوتی ہے۔

٭٭٭٭

ایک دور تھا جب لوگ اپناایڈریس یوں بتاتے تھے کہ’جیرے پان والے کی دکان سے الٹے ہاتھ سڑک پرہوجائیں، آگے دو گدھے بندھے نظرآئیں گے، دائیں طرف ایک مزار ہے اس کے سامنے ٹوکا مشین ہے وہاں سے دو کلومیٹر سیدھا چلنے کے بعد برگد کادرخت آئے گا وہاں ایک حجام کی دکان ہوگی اُس سے میرا پوچھ لیں‘۔ آج کل یہ خدمات گوگل میپ انجام دیتاہے لیکن اکثر جہاں کی لوکیشن لگائیں وہاں سے تین گلیاں پہلے موڑ دیتاہے۔آپ نے اکثرآن لائن ٹیکسی والوں کو اِدھر اُدھر چکراتے دیکھا ہوگا کہ لوکیشن تو یہی آرہی ہے لیکن بندہ کدھر ہے۔جس جگہ گلیوں اور محلوں کا نظام پیچیدہ ہے وہاں گوگل بھی چکراجاتاہے جیسے اٹلی کا شہر وینس۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون سیاح گوگل میپ کے مطابق پیدل چلتی ہوئی سیدھی وینس کی نہرمیں جاگری۔ بی بی گوگل میپ کے بارے میں اتنی پراعتمادتھی کہ نظریں ہاتھ میں پکڑے موبائل پرتھیں اور میپ کے مطابق چلتی جارہی تھی۔ ہوش تو تب اڑے جب پانی پانی ہوگئی۔میرے ایک دوست کے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے۔موصوف کسی جگہ ڈنر پر مدعو تھے۔میزبان نے حسب روایت لوکیشن بھیج دی۔ یہ مطلوبہ جگہ پہنچے تو گڑبڑا گئے کیونکہ یہاں تو پٹرول پمپ کے علاوہ کوئی جگہ نظرنہیں آرہی تھی۔میزبان کو فون کیا تواُن کا فون بند ملا۔ دو گھنٹے پٹرول پمپ سے تھوڑا سا آگے گاڑی میں بیٹھے انتظار کرتے رہے اور پھر مایوس ہوکرگھر آگئے۔اگلے دن پتا چلاکہ لوکیشن بالکل ٹھیک تھی کیونکہ ڈنر پٹرول پمپ منیجرکے کمرے میں ہی رکھا گیا تھا۔

٭٭٭٭

افغانستان نے وہی کیا جو وہ کرتا آرہا ہے۔اور کریں ان کی میزبانی، اور کریں اِنہیں اپنے ہاں آباد۔لیکن جتنا شاندارجواب پاکستان نے دیاہے افغانستان کی حکومت کو برسوں یاد رہے گا۔روسی فوجیں افغانستان سے گئیں تو افغانستان میں جشن منایا گیا کہ روس ہار گیاہے۔امریکی فوجیں گئیں تو پھر جشن منایاگیاکہ امریکہ ہارگیا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ امریکہ ہار کیسے گیا؟ کیا امریکہ افغانستان میں مستقل قیام کرنے گیا تھا؟ اس نے وہاں جو ٹارگٹ حاصل کرنے تھے وہ کرلیے، بعد میں وہاں رہ کے کیا کرناتھا۔آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، پاکستان اسٹرٹیجک لحاظ سے امریکہ اور روس سے بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ہماری فوج یہاں بیٹھے بیٹھے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔لیکن پھر بھی ا فسوس ہےکہ ہم تو آپ کو گلے لگاتے رہے، رہنے کا انتظام کیا، لڑائی میں ساتھ دیا’افغان باقی کہسار باقی‘ شائع کرتے رہے اور آپ کی باری آئی تو آپ کے منہ سے ایک کلمہ خیر تک نہ نکلا۔

٭٭٭٭

جس وقت فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جارہی تھی جنوبی غزہ میں عیدکاسماں تھا جبکہ ہمارے ہاں سڑکوں پرکربلا مچی ہوئی تھی۔فلسطینی خوش تھے اورایک گروہ غم وغصے سے بھرا ہوا تھا۔لوگ ایک دوسرے سے سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ یہ لوگ اسلام آباد کس چیز کا احتجاج کرنے جارہے ہیں۔جونہی بتایاجاتا تھاکہ یہ فلسطین کے حق میں اور امریکہ کیخلاف احتجاج کرنے جارہے ہیں تو حیرت بھر ا میسج آتا تھا کہ فلسطین والے تو بہت خوش ہیں۔ امریکہ نے معاہدے پردستخط کردیے، اسرائیل نے کردیے، فلسطینی حکومت نے کردیے، اسلامی ممالک نے کردیے، حماس نے کردیے تو آپ کویہ کیا سوجھی کہ احتجاج کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ ریاست کا شکریہ کہ پہلی بار اس نے جھکنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ سرکاری مذاکرات بھی نہ کیے۔ پس ثابت ہوا کہ اِس بارپس ِدیوار کوئی نہیں تھا ۔البتہ حیرت ہے کہ پچھلے احتجاج پر جس سیاسی پارٹی کے لوگ بڑھ چڑھ کر اِس مذہبی جماعت کیخلاف بول رہے تھے اِس بار اُن کے بیشتر لوگوں کی ہمدردیاں اِن کیساتھ تھیں۔

تازہ ترین