پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ مذاکرات کے پہلے دور میں قطر اور ترکیہ کے تعاون سے طے پانیوالے جنگ بندی معاہدے پر فریقین نے مخلصانہ طور پر عمل درآمد کیاتویہ نہ صرف دونوں ہمسایہ ملکوں کے تیس کروڑ شہریوں کیلئے سکھ کا سانس لینے اور اپنے ملکوں کو یکسوئی کے ساتھ ترقی و استحکام کی راہ پر آگے بڑھانے کے مواقع فراہم کرنے کا سبب بنے گا بلکہ امن سے محبت رکھنے والے دنیا کے ہرا نسانیت دوست شخص کیلئے بھی باعث مسرت و اطمینان ہوگا۔
ہفتے کی رات مذاکرات کا نتیجہ جاننے کیلئے ساری دنیا کی نگاہیں دوحہ پر لگی ہوئی تھیں اور ابتدائی خبروں میں صرف بات چیت کے پہلے مرحلے کے مکمل ہو جانے کی اطلاع دی گئی تھی۔ تاہم اسکے بعد قطری وزارت خارجہ کا بیان منظر عام پر آیا کہ پاکستان اور افغانستان جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں۔ بیان میں بتایا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق قطر و ترکیہ کی ثالثی میں ہوا جبکہ دونوں ممالک نے پائیدار امن اور استحکام کیلئے مستقل میکانزم بنانے پر بھی اتفاق کیا۔ قطری وزارت خارجہ نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ جنگ بندی خطے میں پائیدار امن کے قیام کی مضبوط بنیاد فراہم کریگی۔قطر نے عالمی تنازعات میں ثالثی کا جو مستقل کردار اپنا لیا ہے، وہ اس کی انسانیت دوستی، امن پسندی اور دانشمندی کا واضح مظہر ہے۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے آخری برسوں میں طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے میں بھی قطر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔چار سال پہلے افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد توقع تھی کہ نئی افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان طالبان اقتدار کے پہلے دور کی طرح بہترین تعلقات قائم ہونگے۔ مذہب ، تاریخ، جغرافیہ اور تہذیب و ثقافت کے رشتوں میں جڑے دونوں مسلم برادر و ہمسایہ ملک ترقی اور استحکام کے سفر میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دینگے۔ لیکن ان امیدوں کے برعکس افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی آمد کا سلسلہ روز بروز بڑھتا چلا گیا۔ صورتحال کو بات چیت کے ذریعے بہتر بنانے کی مسلسل کوششوں اور افغان حکومت کی جانب سے اپنی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیوں کے باوجود دہشت گردوں کی آمد اور کارروائیاںبڑھتی چلی گئیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کیخلاف افغانستان کے رہبر اعلیٰ ملا ہیبت اللہ تک کے بیانات کے باوجود یہ سلسلہ شدید تر ہوتا چلا گیا جبکہ ایسا ہونا پاکستان کے لوگوں کیلئے نہایت تعجب خیز اور ناقابل فہم تھا جو چار عشروں سے مہاجر افغان بھائیوں کی دل و جان سے میزبانی کرتے چلے آرہے تھے۔پاکستان کے حکومتی اور عسکری ذمے داروں نے بارہا افغانستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کی نشان دہی بھی کی لیکن سرحد پار سے دہشت گردی کا معاملہ جوں کا توں رہا۔
افغانستان کے اس رویے کا سبب کیا تھا؟ پاکستان کے لوگوں کو اس سوال کا جواب دس اکتوبر سے شروع ہونے والے افغان وزیر خارجہ امیرخان متقی کے دورہ بھارت کی شکل میں مل گیا جس میں انہوں نے ’’مجھے محمدﷺ سے محبت ہے‘‘ کہنے پر مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالنے والی مسلم دشمن مودی حکومت کے مؤقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا۔
افغانستا ن کی طالبان حکومت کو دین و ایمان کے رشتے سے اپنے منصفانہ مؤقف کا حامی و ہمدرد سمجھنے والے کشمیریوں کیلئے افغان وزیر خارجہ کا یہ بیان جس قدر غیرمتوقع اور تکلیف دہ تھا، اس کا کچھ اندازہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینیر غلام محمد صفی کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’کشمیری تو یہ توقع کر رہے تھے کہ مولوی امیر متقی بھارت جا کر ہمارے حق میں بات کریں گے لیکن انہوں نے بھارت کے مؤقف کو آگے بڑھایا۔ یہ غیر متوقع عمل کشمیریوں، پاکستانیوں اور افغان عوام سب کیلئے حیران کن، الارمنگ اور آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ ‘‘ ایک میڈیا گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ ’’افغان وزیرخارجہ کے بیان سے ہمیں کوئی نقصان نہیںبلکہ الٹا یہ فائدہ پہنچا ہے کہ ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں اور ہمیں اپنے دوستوں کی پہچان ہوگئی ہے۔ ورنہ معلوم نہیں ایسے افراد کس وقت پیٹھ میں چھرا گھونپتے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مولوی امیر متقی کے بیان کو افغان عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے ،بلکہ اس بیان سے عام افغان کے جذبات اور مفادات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ افغان شہری جانتے ہیں کہ اس وقت ان پر کون سا مخصوص ذہن رکھنے والا دھڑا قابض ہے۔ عام افغانی پاکستان اور کشمیریوں کا ہم نوا ہے اور پاکستان اور کشمیریوں کی قربانیوں کو سمجھتا ہے‘‘۔
کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے سربراہ الطاف وانی نے واضح کیا کہ’’ افغان وزیر خارجہ کا بیان نہ صرف کشمیریوں، بلکہ عالمی سطح پر حق کی جدوجہد کرنے والوں کو دبانے اور انکے موقف کی نفی کرنے کی بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ کی عالمی سازش ہے۔ یہ بیان تو خود افغانوں کے مفاد اور افغانستان کی سا لمیت کیخلاف ہے جسے عام افغان سپورٹ نہیں کرتا۔ بھارت میں افغان وزیر خارجہ کا بیان غیر متوقع اور حیران کن ہے اور اس سے خود افغانستان کے شہری بھی ششدر رہ گئے ہیں۔ لیکن وہاں ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے گروپ کے جبر کی وجہ سے کسی کو بولنے کی آزادی نہیں ورنہ اس وقت لاکھوں افغان شہری سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کر رہے ہوتے۔‘‘
کابل کے حکمراں اگر سمجھ بوجھ سے کام لیں تو ان کا اس حقیقت تک پہنچنا مشکل نہیں کہ اپنی مسلم دشمن پالیسیوں اور اسرائیل سے گٹھ جوڑ کے باعث بھارت اور کشمیر ہی نہیں پوری دنیا کے ہوشمند مسلمانوں کی نفرت کا ہدف بن جانے والی مودی حکومت کی گود میں بیٹھ کر وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہوں میں کس قدر بے اعتبار ہوتے چلے جائیں گے اور دو عالمی طاقتوں کو شکست دے کر انہوں نے مسلم دنیا میں جو عزت حاصل کی تھی وہ ایک بدترین اسلام دشمن حکومت کا طفیلی بن جانے کے باعث کس طرح خاک میں مل جائے گی۔ لہٰذا بہتر ہے کہ وہ سجدہ سہو کرلیں اور پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر آگے بڑھیں جو عقیدے، تاریخ اور تہذیب کی یکسانیت اور ہر دیگر اعتبار سے ان کیلئے بہتر انتخاب ہے۔ بصورت دیگر پاکستان کو بھی افغانستان سے تعلقات کی نوعیت پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔