• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان کے مابین، قطر کی میزبانی میں ہونے والی پیش رفت کو معاہدہ کہا جائے یا محض مفاہمت، آگے بڑھنے کیلئے عزم کانام دیا جائے یا سنجیدہ گفتاری کا محض ایک مرحلہ، اِسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ بجا طورپر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کو اس میں روشنی کی کرن نظر آئی ہے۔ وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف نے بھی اُمید افزا ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے برادر اسلامی ممالک قطر اور ترکیہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ مذاکرات کا اگلا اہم مرحلہ 25اکتوبر ہے جس کی میزبانی ترکیہ کرے گا۔

سرِ دست، قطر اور دیگر ممالک کی کوششوں کا ثمر یہ نکلا ہے کہ دونوں ممالک، رسمی طور پر ’جنگ بندی‘ پر آمادہ ہوگئے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ سیز فائر کو غیرمعینہ مدت تک توسیع مل گئی ہے۔ ’جنگ بندی‘ کی اصطلاح تو قدرے عجیب سی لگتی ہے کیونکہ معروف معنوں میں دونوں ممالک باہم جنگ آزما نہیں۔ پاکستان کی کارروائیاں دفاعی نوعیت کی تھیں جن کے تحت دہشت گردوں اور پاکستان پر مسلسل حملے کرنیوالی تنظیموں کی پناہ گاہوں اور تربیت گاہوں کیخلاف کارروائیاں کی گئیں ۔ سیز فائز یا جنگ بندی کی ترکیب اس اعتبار سے بھی عجیب لگتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان یا پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنیوالے گروہ نہ تو اِن مذاکرات کا حصہ ہیں نہ اُن میں سے کسی نے سیز فائر یا جنگ بندی کا واضح اعلان کیا ہے۔ اُن کی طرف سے ابھی تک دوست ممالک کے تعاون سے شروع ہونے والے مذاکراتی عمل پر بھی کوئی رسمی ردّعمل سامنے نہیں آیا۔ تو کیا اِس سے یہ معنی اخذ کئے جائیں کہ ٹی ٹی پی یا ایسی ہی دیگر دہشت گرد جماعتوں کی ضمانت کابل حکومت دے رہی ہے؟ یعنی یہ تنظیمیں، اپنا اپنا نظم رکھنے کے باوجود کابل انتظامیہ ہی کو اپنا رہبر و راہنما اور سرپرست وپیشوا خیال کرتی ہیں اور اُن کے حکم کی پاسداری کرتی ہیں۔ یہی بیانیہ پاکستان کا ہے اور اسی موقف کی بنیاد پر وہ کابل انتظامیہ سے تقاضا کر رہا ہے کہ وہ اپنی سرپرستی کے سائے تلے پرورش پانے اور اُن کے حکم کے تابع دہشت گرد عناصر کو لگام ڈالیں۔

پاکستان کا یہ انتہائی سیدھا سادہ اور عالمی ضابطوں کے مطابق مطالبہ ہے جس کی اہمیت کو اس معاملے میں شریک دوست ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں۔ طالبان کیا جواز یا دلیل دیتے ہیں؟ ابھی تک بات کھُلنے نہیں پا رہی۔ یہ معّمہ بھی حل ہونے میں نہیں آ رہا کہ کابل انتظامیہ کی پاکستان سے دشمنی کی حدوں تک پہنچ جانے والی پرخاش کے اسباب کیا ہیں؟ اُس نے اپنی حکمتِ عملی کو بھارت سے کیوں جوڑ لیا ہے اور اُس کے مقاصد کا آلۂِ کار کیوں بنتی جارہی ہے؟ طالبان کی حکومت کم وبیش پانچ سال پہلے بھی قائم تھی۔ دس سالہ مہم جوئی کے بعد روس افغانستان سے نکلا تو جہادی تنظیموں کی عمل داری شروع ہوئی۔ دس برس تک، افغان مزاحمت کے پہلو بہ پہلو، روس سے پنجہ آزمائی کے بعد پاکستان نے بھرپور کوشش کی کہ جہادی تنظیمیں آپس میں، الجھنے کے بجائے ایک مستحکم اور پائیدار حکومت قائم کرکے، ایک بڑی عسکری کامیابی کے ثمرات عوام تک پہنچائیں۔

ایسانہ ہوا تو قندھار سے طالبان کی نمُو ہوئی۔ ملا محمد عمر کی قیادت میں یہ تحریک برق پائی سے آگے بڑھی۔ یہاں تک کہ 1996 میں کابل طالبان کی تحویل اور امیر المومنین ملّا محمد عمر کی فرماں روائی میں آ گیا۔ نومبر2001میں امریکہ اور نیٹو افواج کی یلغار پر یہ حکومت ختم ہوگئی۔ اہم بات یہ ہے کہ طالبان کے پانچ سالہ عہد میں، وہ کچھ بہرحال نہیں ہوا جو گزشتہ چار برس سے جاری ہے۔ بلکہ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ گزشتہ پینتالیس برس سے آتشکدہ بنے افغانستان اور آتی جاتی مختلف النوع حکومتوں کے باوجود پاکستان کیخلاف کبھی دہشت گردی کی ایسی منظم، مسلسل اور خوں آشام کارروائیاں نہیں ہوئیں جو موجودہ افغان انتظامیہ کے چار سالہ عہد میں ہوئیں۔ گزشتہ برس، 2024میں 2546 افراد، دہشت گردی کا لقمہ بنے جن میں مسلح افواج کے سینئر افسران کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس سال کے پہلے نو مہینوں میں، لُقمہِ دہشت گردی ہونیوالوں کی تعداد 2414ءتک پہنچ چکی ہے۔ اِس قدر خوں ریزی کے بارے میں افغانستان کا محض یہ کہہ دینا کہ ’’یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ پست درجے کا مذاق ہی کہلایا جاسکتا ہے۔

قطر اور استنبول کے مذاکرات، کیا رُخ اختیار کرتے اور کتنے نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں؟ اس کا اندازہ بہت جلد ہوجائے گا۔ سارا انحصار طالبان حکومت پر ہے۔ کیا وہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر گروہوں سے فاصلہ کرلینے اور انہیں بطور ایک ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت کار سے مکمل طورپر دستبردار ہوجائے گی؟ کیا وہ بھارت کے آسیب سے نکل کر، پاکستان کے ساتھ نئے تعلقاتِ کار پر آمادہ ہوجائے گی؟ اِس کا انحصار، افغان حکمرانوں کی سوچ اور نیّت، یعنی سیاسی عزم پر ہے۔ نیّت کے ساتھ ہی جڑا سوال ’صلاحیت‘ کا ہے۔ کیا کابل انتظامیہ اِن منہ زور دہشت گرد تنظیموں کے ڈھانچے زمیں بوس کرنے اور انہیں مکمل طورپر غیرفعال کردینے کی قدرت رکھتی ہے؟ کسی بھی پائیدار حل اور دونوں ممالک کے اچھے تعلقات ِکار کیلئے، ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ضروری ہیں۔ بڑی ذمہ داری قطر، ترکیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہیں ’سیز فائر‘ اور ’جنگ بندی‘ سے آگے نکل کر اُس بنیادی مرض کا علاج کرنا ہے جو پاک افغان تعلقات میں دشمنی کو چھوتی کشیدگی تک آ پہنچا ہے۔ ہم بڑے تلخ تجربوں سے گزر چکے ہیں۔ 2014میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لئے کمیٹی نے اچھی پیش رفت کی۔ کمیٹی کا واحد سرکاری رُکن ہوتے ہوئے مجھے بہت سی تفصیلات کا علم ہے۔ مولانا سمیع الحق مرحوم، رستم شاہ مہمند اور پروفیسر ابراہیم خان کو ٹی ٹی پی نے اپنے نمائندے نامزد کیا تھا۔ بات آگے بڑھ رہی تھی۔ سیز فائر کا اعلان بھی ہوگیا تھا کہ آغازِ مذاکرات کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد، 17 فروری 2014 کو مہمند ایجنسی طالبان کے عمر خالد خراسانی نے اعلان کیا کہ ’’ 2010میں ایف سی کے جن تیئس (23) اہلکاروں کو فاٹا کی چیک پوسٹ سے اغوا کیا گیا تھا، آج اُنہیں قتل کردیا گیا ہے۔‘‘ مذاکرات کی ہانڈی بیچ چوراہے کے پھوٹ گئی۔

کابل انتظامیہ کی ’نیّت‘ اور ’صلاحیت‘ سے قطع نظر، ٹھوس اور پائیدار نتائج کیلئے ضروری ہے کہ دوست ممالک، ایک موثر نظم وضع کریں، اس کی ضمانت دیں اور ممکن ہو تو اس پر عمل درآمد کا میکانزم بھی وضع کریں۔ ورنہ ساری مشق، مشقِ لاحاصل ہی رہے گی۔

تیس برس قبل، 1995میں، جب قندھار کے ایک زخم خوردہ ریسٹ ہائوس میں، مولانا سمیع الحق مرحوم کے پہلو میں بیٹھے، میں تازہ تازہ نمُو پاتے طالبان کے راہنما ملا محمد عمر کی تقریر سُن رہا تھا تو سامعین تصویرِ حیرت بنے بیٹھے تھے۔ ملا محمد عمر کہہ رہے تھے’’میرے پاکستانی بھائیو! ہم قیامت تک آپ کا احسان نہیں بھولیں گے۔ ہم اپنی نسلوں کو بھی بتا کر جائیں گے کہ اگر پاکستان اور افغانستان، دونوں پر آزمائش کا وقت آ جائے تو پہلے پاکستان کی جنگ لڑنا۔ میرے بھائیو! یہ لفظ لکھ لو۔ جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا لہو گرے گا۔۔‘‘

تب کابل حکومت کے موجودہ سربراہ اعلیٰ شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ دوحا میں افغان وفد کی نمائندگی کرنیوالے وزیردفاع ملا محمد یعقوب پانچ سال کا بچہ تھا۔ افغان مذاکراتی وفد کے تیسرے رُکن ملا عبدالحق واثق کی عمر تب بیس سال بھی نہ تھی۔ ان میں سے کسے یاد دلائیں کہ تمہارے امیر المونین اور پیشوا نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا تھا؟

تازہ ترین