یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ انسانی ضمائر میں انقلاب کروٹیں لے رہا ہے، دنیا جلد سے جلد پلٹا کھانا چاہتی ہے، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ سانحہ کب ہو؟ لیکن بلاخوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ انقلاب ہو گا اور ضرور ہو گااور جلد ہو گا، اس کی شکل کیا ہو گی، کیسی ہو گی اور اس کے برگ و بار اپنے ساتھ کیا لائیں گے حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے ایک بات قطعی طور پر محسوس ہوتی ہے کہ ظلم کی انتہا، طاقت کی خرمستی اور اقتدار کا نشہ اُس وقت اپنے انجام کی طرف چل پڑتا ہے جب وہ نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے بقول حضرت شورش کاشمیری ؒ ’’اقتدار اور مصیبت دونوں عارضی ہوتے ہیں، حکمرانوں کا اقتدار نہیں رہتا اور مظلوموں کی مصیبت بھی ٹل جاتی ہے‘‘۔
ہر دور اپنے معاملات، واقعات ، فتوحات اور سانحات کا آئینہ دار ہوتا ہے، اسی طرح ہر اقتدار اپنے حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی کا نمونہ ہوتا ہے ، کہتے ہیں کہ انسان دولت اور طاقت میں بڑا نہیں ہوتا بلکہ بے نقاب ہو جاتا ہے- حکمران ریاستوں کے مالک نہیں ہوتے بلکہ درحقیقت اپنے امور حکومت کے ضمن میں مخلوق ِ خدا کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، جہاں مخلوق حکمرانوں کے ظلم و تشدد اور غرور و نحوت کا نشانہ بنا لی جائے وہاں یقین جانئے ’’عوامی انقلاب رونما ہو یا نہ ہو آسمانی عذاب ضرور آتا ہے‘‘۔
اور بقول شورش کاشمیری ؎
داغ ہی داغ ہیں تاریخِ جہان بانی پر
آج پھر بل ہیں وہی وقت کی پیشانی پر
آج وطنِ عزیز کے چاروں اطراف نظر دوڑائیں اور خود فیصلہ کریں کہ ہم نے حضرت اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کی امانت سے کیا سلوک کیا ہے ؟اہل ِ سیاست سے لے کر اہلِ ظرافت تک ہر مکتبہ فکر نے اسلام ، پاکستان ، اقبال اور قائد کو نہ صرف تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اپنے ذہنی آقاؤں کی تسلی اور تشفی کے لیے وہ وہ شرمناک کھیل رچائے جس کا تصور کرتے ہوئے بھی ایک کھرے پاکستانی کو شرم محسوس ہوتی ہے- کیا یہ سچ نہیں کہ وہ ملک جو ہم نے لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا اورجس دو قومی نظریئے کی بنیاد پر اس کی نیو اٹھائی گئی اسے سیاسی مسخروں ، صحافتی قوالوں اور دوغلے تجزیہ نگاروں نے اپنی زبان اور قلم کے نیزوں پراُچھالا- ایسے چہروں کے بارے میں کسی نے خوب کہا ہے کہ
بہت سے دوغلے چہرے اسی خواہش پہ جیتے ہیں
کہ ان کوچہ و بازار میں تشہیر ہو جائے
یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ جہاں خود احتسابی ناپید ہو جائے وہاں خدا محتسب خود بھیج دیا کرتا ہے-آج جبکہ ہماری مسلح افواج وطن کی بقاء اور قوم کی سلامتی کے لئے دہشت گردی کے عفریت سے جنگ لڑ رہی ہے اور فوجی جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے وطن کی ناموس کے لئے سینہ سپر ہیں، اس موقع پر ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم سب کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق اور سیاسی خواہشوں کو پس پشت رکھ دیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ملکی لیڈروں اور رہنماؤں کو اپنے مستقبل کے بجائے قوم اور ملت کے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے- پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ، ہمارا ایک ہی نصب العین ہونا چاہئے اول و آخر پاکستان.... پاکستان.....پاکستان۔
میرے ہمراہی کریں گے اس قدر جانیں نثار
مغفرت کی ذرے ذرے کو دعا دینی پڑے
سرزمینِ پاک سے ایسے اٹھاؤں گا شہید
جن کے مدفن کو زمین کربلا دینی پڑے
آج قومی وقار کی بات کرتے ہوئے ہمیں لمحہ بھر کے لئے یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ 67 برس کی عمر میں جا کر قومی وقار ’’گلو بٹ‘‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ قومی وقار سے زیادہ ’’قومی المیہ‘‘ ہے- اس قماش کے لوگ معاشرے کا ناسور، ملکی سیاست کے رخسار پر طمانچہ، جمہوریت کے چہرے پر برص کا داغ اور ملی غیرت کا جنازہ ہے-ہم حکومت کے ارباب و بست سے کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسے اُجرتی غنڈوں اور بدمعاشوں کو ایسا سبق سکھائیں کہ دوبارہ کوئی گُلو بٹ جنم نہ لے سکے- یوں تو ہمارے معاشرے کے ہرموڑ پے کسی نہ کسی شکل میں گلو بٹ نظر آئیں گے جو چادر ِ مادرِ وطن کو تار تار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ان کا تعاقب کر کے انہیں تلف کر دیا جائے ، یہی وقت کا تقاضا اور عوام کی آواز ہے، اگر آج ہم نے ایسے افراد کی سرکوبی نہ کی تو یہ فصل پک کر سرسبز کھیتی کو وہ نقصان پہنچائے گی جس کی تلافی آنے والی نسل کے لئے بھی ناممکن ہو جائے گی-حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والا مملکت خداداد اسلامی میں جو اندوہناک اور افسوسناک واقعہ ہوا ہے اس کی مذمت کے لئے لفظ شرمندہ، زبان گنگ اور قلم رُک گیا ہے- بقول شورش کاشمیری ؒ ’’خدا کا عذاب بڑا سخت ہے اس نے آلیا تو اس طرح پھرو گے جس طرح سلفے کا شعلہ ، طوائف کا قہقہہ، نائیکہ کی ہچکی اُڑتے پھرتے ہیں اور جیسے مخنث کا جنازہ رات گئے نکلتا ہے‘‘۔