فقیر ایپی نے رزمک کے علاقہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان حکومت نے مجھے اب تک مغالطے میں رکھا ہوا تھا اور’’اسلام‘‘کے نام پر مجھے فریب دیا گیا تھا ۔ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کوہدایت کی کہ افغان حکومت اگر آئندہ میرے نام پر پاکستان کے خلاف کوئی منصوبہ بنائے تو اس سے کبھی تعاون نہ کیا جائے ۔ فقیر ایپی افغانستان اور انڈیا کی جانب سے پاکستان کو پختون علاقوں میں مسلح کارروائیوں کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی اولين سازشوں میں سے ایک تھے جو جلد ہی اس ٹریپ کو سمجھ گئے اور پھر اسی سبب سے افغانستان نے فقیر ایپی کے خلاف بیان جاری کیا تھا کہ وہ انکے ہاتھوں سے نکل گئےہیں ۔ اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاک افغان تعلقات کو صرف ایک وقتی تعلق یا حادثہ کےتحت سمجھ لینا قطعی طور پر درست طریقہ کار نہیں۔ ہم جب پاک افغان تعلقات کی موجودہ نہج کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس وقت سابقہ سوويت یونین کے فوجی بوٹوں کی افغان سر زمین پر آمد سے واقعات کو جوڑتے ہیں اور ایک بہت بڑے طبقہ فکر کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نے خواہ مخواہ افغانستان کے داخلی مسائل میں اپنے ہاتھ الجھائے جو اب جل رہے ہیں ۔ واقعات صرف فقیر ایپی تک ہی محدود نہیں رہے تھے ۔ اس خطرے کو پاکستان کی ریاست ابتدا سے محسوس کر رہی تھی ۔ قائد اعظمؒ نے دسمبر انیس سو سینتالیس میں امریکی ناظم الامور مسٹر لیوس کو بتایا تھا کہ قلات اور گلگت میں سوویت ايجنٹوں کی سرگرمیوں کے بارے میں انکے پاس یقینی اطلاعات موجود ہیں ۔ انہوں نے اس بات پر خبر دار کیا کہ سوويت ايجنٹ افغانستان کو قلات کے علاقے میں ایک بندر گاہ سمیت بہت سا علاقہ ہتھیانے پر اکسارہے ہیں ۔ اور یہ کوئی خود ساختہ اندیشہ نہیں تھا بلکہ ظاہر شاہ کے چچا ،جو اسکے دور میں وزیر اعظم بھی تھے، نے اسٹیٹس مین اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایک آزاد پختونستان قائم نہیں کیا جا سکتا تو سرحدی صوبہ افغانستان میں شامل ہونا چاہئے ۔ ہمارے ہمسایہ پاکستان کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارے ملک کو اپنی آبادی اور تجارت کے ساتھ ، سمندر تک ایک آؤٹ لیٹ کی ضرورت ہے جو بہت ضروری ہے ۔ اور اس صورتحال کو بین الاقوامی طاقتیں بھی محسوس کر رہی تھی 29 دسمبر 1947 کو برطانوی دفتر خارجہ نے لندن میں امریکی ناظم الامور کو بتایا کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان مکمل جنگ چھڑ گئی تو پھر اس کے خیال میں افغانستان بھی موقع سے فائدہ اٹھائیگا اور انڈیا کا ساتھی بن جائیگا ۔ پھر ستمبر 1950 میں افغانستان کی جانب سے باقاعدہ حملہ کر دیا گیا جس میں افغان فوج اور اس طرف کے قبائلی شامل تھے یہ معرکہ 6 روز جاری رہا اور ان لوگوں کو بھاگنا پڑا ۔ سردار داؤد کے 1953 سے 1963 تک کے دور میں 1955 میں کابل میں پاکستانی سفارتخانہ ، قندھار میں قونصلیٹ تک جلا دیا گیا۔ 1960میں باجوڑ پر باقاعدہ حملہ کیا گیا جس کو سب سے پہلے پاکستانی قبائلیوں نے پسپا کیا اور یہ تصادم ایک سال تک چلتا رہا ۔ پھر جب ظاہر شاہ کو معزول کرکے سردار داؤد نے اقتدار حاصل کر لیا تو اپنی نشری تقریر میں پاکستان کے خلاف اتنا زہر اگلا کے بھٹو کو اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کرکے پاکستان لوٹنا پڑا، اسکے بعد سوويت آمد کی داستان ہے جو ہم سب کو علم ہے مگرجھوٹ کی تصحیح کی ضرورت ہے کہ پاکستان نے افغانوں کی مدد کوئی امریکی ایما یا ڈالروں کی لالچ میں کی تھی ۔ جب سوويت روس افغانستان میں داخل ہوا تھا تو امریکہ میں صدر کارٹر کی حکومت تھی جو پاکستان کے حوالے سے بہت سرد مہری کا رويہ اپنائے ہوئے تھی اور جب اس نے 40 کروڑ ڈالر کی امداد کی پیش کش کی تو ضیاء الحق نےاسے مونگ پھلی کے دانے کہہ کر رد کردیا ۔ ابتدا میں پاکستان خود افغانستان کے اندرونی خلفشار سے نبرد آزما ہوتا رہا تا وقتیکہ امریکہ میں صدر ریگن کی 1981 میں حکومت قائم ہو گئی ۔ پاکستان افغانستان کی معاندانہ حرکتوں سے پریشان تھا اور اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھنے کیلئے خود سب سے پہلے میدان میں اترا تھا ۔ ڈالروں کی کہانی بعد کی بات ہے ۔ اس سب کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو ذہن نشین رکھا جائے کہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت ہو اور اس پر پاکستان کے جتنے مرضی احسانات ہو ںمگر اس کی سوچ پاکستان کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر کے گرد گھومتی ہے ہمیں یہ افغان طالبان سے چائے پیتے ہوئے یاد رکھنا چاہئے تھا کہ ملا عمر نے بھی ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا اور اس حوالے سے ظاہر شاہ ، سردار داؤد یا افغان طالبان سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ابھی افغان طالبان کے نائب وزیر داخلہ نبی عمری نے کہا ہے کہ پاک افغان جھڑپوں نے افغانوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پاکستان کے پاس موجود اپنے علاقوں پر دعویٰ کرے اور اگر خدا نے چاہا تو یہ زمین ہمارے پاس آ جائےگی ۔ وہاں سے کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی قوم پرستی کے نام پر مسائل سامنے آتے ہی رہیں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس حوالے سے کیا کرنا چاہئے ۔ اول تو کسی جذباتی نعرے بازی کے پیچھے لگنے کی بجائے واقعات اور حالات کا مکمل طور پر غیر جذباتی ہو کر مطالعہ کیا جانا چاہئے کہ مسائل کیا ہیں اور کونسے مسائل کس حد تک حل ہو سکتے ہیں ؟ دنیا بھر میں امن لانے کیلئے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے سب سے مضبوط سیڑھی معاشی تعلقات ہوتے ہیں ۔ اگر ہم ریجنل کنیکٹیویٹی، جو جنوبی ایشیا سے وسطی ایشیا تک اور دونوں ممالک کے مابین بھی موجودہ سطح سے بہت بلند ہو، کو ممکن بنا دیں تو اس سے بہرہ مند کاروباری افراد اب وہ چاہے افغان طالبان کے سرکردہ افراد ہی کیوں نہ ہو ںجنگ سے اجتناب کرینگے ۔ اگر ہم کوئی مشترکہ بزنس ماڈل دونوں ممالک کے مابین نہ بنا سکے تو پھر سر درد برقرار رہے گا چاہے وقتی طور پر افاقہ ہی کیوں نہ ہو جائے ۔